شاہ نوارانی کے مزار پر حملہ 14 سالہ لڑکے نے برقعہ پہن کر کیا ، 36 لوگ شہید ہوئے ، سی پیک منصوبہ کوسبوتاژکرنے کے لئے ایسے واقعات کرائے جا تے ہیں،گوادر بندرگاہ پر افتتاح سے ایک دن قبل دھماکہ کرکے ملک کا امیج خراب کرنے کی کو شش کی گئی،، گزشتہ چارسال کی نسبت دہشت گردی کے واقعات میں بڑی حد تک کمی آئی ہے،ایک واقعہ کی وجہ سے بہتری کو نظر انداز نہیںکرنا چاہیے ،دہشت گردی مکمل خاتمہ تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، دنیا کے کئی ممالک میں دہشت گردی بڑھی اور پاکستان میں کم ہوئی، فرانس اورسمیت جدید ترین ممالک میں بھی اطلاع کے باوجود دہشت گردی کے واقعات روکے نہیں جا سکے

وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمن کا سینیٹ میں شاہ بلاول نوارانی کے مزار پر دہشت گرد حملے کے حوالے سے تحریک التوا پر بحث سمیٹتے ہوئے خطاب

جمعرات 24 نومبر 2016 20:45

شاہ نوارانی کے مزار پر حملہ 14 سالہ  لڑکے نے برقعہ پہن کر کیا ، 36 لوگ شہید ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 24 نومبر2016ء) وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمن نے کہاہے کہ شاہ نوارانی کے مزار پر حملہ 14 سالہ لڑکے نے برقعہ پہن کر مزار میں داخل ہو کر کیا اور اسمیں 36 لوگ شہید ہوئے تھے،میڈیا پر تعداد زیادہ بتائی گئی تھی، سی پیک منصوبہ سبوتاژکرنے کے لئے ایسے واقعات کرائے جا تے ہیں، گزشتہ چارسال کہ نسبت دہشت گردی کے واقعات میں بڑی حد تک کمی آئی ہے،ایک واقعہ کی وجہ سے بہتری کو نظر انداز نہیںکرنا چاہیے،گوادر بندرگاہ پر افتتاح سے ایک دن قبل دھماکہ کرکے ملک کا امیج خراب کرنے کی کو شش کی گئی،دہشت گردی مکمل خاتمہ تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، دنیا کے کئی ممالک میں دہشت گردی بڑھی ہے پاکستان میں کم ہوئی ہے، فرانس اورسمیت جدید ترین ممالک میں بھی اطلاع کے باوجود دہشت گردی کے واقعات روکے نہیں جا سکے ،ملک میںمعاملات بہتری کی جانب جا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

وہ ایوان بالا کے اجلاس میں جمعرا ت کوشاہ بلاول نوارانی کے مزار پر ہونے والے دہشت گردی کے حملے کے حوالے سے تحریک التوا پر بحث سمیٹ رہے تھے ۔سینیٹر مشاہد اللہ خان نے اپوزیشن کی دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے حوالے سے حکومت پر تنقید کے جواب دیتے ہوے کہاکہ دہشت گردی کا مسئلہ چوہدری نثار کا نہیں قومی مسئلہ ہے،صوبے چوہدری نثار پر تنقید کے بجائے اپنے کا م پر توجہ دیں تو الزام لگانے کی ضروت نہیں پڑے گی ،ساڑھے 3 سال سے لاء اینڈ آرڈر کی کیا صورتحال تھی عدالتوں نے یہ با ت کہی کہ جماعتوں کے عسکری ونگ ہیں اور بھتہ لیتے ہیں،بتایا جائے پہلی دہشت گرد تنظیم ال ذوالفقار کس نے بنائی تھی، اپوزیشن کو مکاری نہیں کی جانی چاہیے جائز بات کرنی چاہیے ۔

بحث میں سینیٹر عثمان کاکڑ،سینیٹر حافظ حمد اللہ ، سینیٹر کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی ،سینیٹر تاج حیدر ودیگر نے بھی حصہ لیا۔ وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمن نے کہاکہ شاہ نورانی مزار ایک پرائیویٹ مزار ہے یہ کسی حکومت کے پاس نہیں ہے۔ 14 سال کا لڑکا برقعے ڈال کر مزار میں داخل ہوا 36 لوگ شہید ہوئے تھے 59 شہید ہوئے جن میں سے 2 لوگ بلوچستان اور 34 لوگ سندھ سے تھے۔

لڑکے نے پہلے 9 ایم ایم بلٹس شوٹ کیں اور پھر خودکش دھماکہ کیا ۔ دور دراز علاقہ تھا پہنچنے میں وقت لگا اور نقصان ہوا۔ بلوچستان لیویز کا ایک سیکشن جس میں 10 لوگوں کو تعینات کیا گیا تھا لیکن صرف ایک اہلکار موجود تھا غفلت کی گئی ۔ انٹری پوائنٹس نہیں بنایا گیا تھا۔ سی پیک سبوتاژ کرنے کے حوالے سے واقعات ہوتے ہیں۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ شاہ بلاول نورانی کے مزار پر ہونے والے دہشت گردی کے حملے میں 60 سے زیادہ غریب لوگ شہید ہوئے۔

کوئٹہ میں خوف و ہراس ہے ‘ حکومت نے سکول بھی بند کر دئیے ہیں ‘ ایک طرف دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ضرب عضب کامیاب ہو گیا ہے اور دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے ۔ ضرب عضب کے بعد دہشت گردی کے سب سے زیادہ واقعات بلوچستان میں ہوئے ہیں لیکن اداروں سے پوچھنے والا کوئی نہیں ۔ مرکزی حکومت انٹیلی جنس اداروں کو بیدار کرے اور مزید واقعات کی روک تھام کیلئے منصوبہ بندی کرے۔

ذمہ داروں اور سہولت کاروں کیخلاف ایکشن ہونا چاہیے۔ سینیٹر اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ کوئٹہ کو سنبھالنے میں حکومت اور سیکیورٹی ادارے ناکام ہو رہے ہیں۔ سینیٹر حافظ حمد اللہ نے کہا کہ 3 ماہ میں 3 حملوں میں 200 سے زائد لوگ مارے گے۔ ان حادثات و سانحات کا ذمہ دار کون ہے۔ اس کا تعین کیوں نہیں ہوا۔ نااہلیت کے ذمہ داران کا تعین نہیں ہوا۔ بلوچستان والے لاشیں اٹھاتے ہوئے نہیں ڈرتے لیکن سوال اٹھانے سے ڈرتے ہیں۔

بلوچستان کو وسائل آبادی کے تناسب سے لیکن لاشیں رقبے کے تناسب سے مل رہی ہیں۔ عجیب منطق پیش کی جا رہی ہے کہ سی پیک کے خلاف حملہ تھا لیکن کیا شاہ نورانی کا مزار سی پیک کا حصہ تھا اب تک صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت یا انٹیلی جنس اداروں کی ذمہ داری کا تعین نہیں ہوا۔ دھماکے صوبائی ‘ وفاقی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی ہے۔ سینیٹر کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی نے کہاکہ شاہ نورانی مزار پر حملہ قابل مذمت ہے۔

سی پیک منصوبے سے قبل بھی اس سے زیادہ دہشت گردی ہوئی تھی۔ شہریوں کا تحفظ حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔ وفاقی حکومت اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام ہو گئی ہے۔ صوبائی حکومت بھی بنک لوٹ کر خزانے بھرنے کیلئے نہیں آئی تھی وہ بھی ناکام ہوئی ہے۔ دھماکے میں پاکستانیوں کاخون ہوا ہے۔ دہشت گرد درندے ہیں۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہاکہ بار بار کہا جاتا ہے کہ سی پیک کو ناکام کرنے کیلئے دہشت گردی کی جا رہی ہے اگر بات درست ہے تو دہشت گردی سندھ اور پنجاب میں دہشت گردی ہونی چاہیے سی پیک تو وہاں بن رہا ہے۔

دنیا بھر میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ نیشنل سیکیورٹی پر پارلیمنٹ کی فوری کمیٹی تشکیل دی جائے۔ چند ہزار مسلح لوگوں سے نمٹا جا سکتا ہے اس کیلئے عزم کی ضرورت ہے۔ سینیٹر دائود اچکزئی نے کہاکہ ذمہ داری ایک دوسرے کے اوپر شفٹ کی جاتی ہے۔ آج تک سموں کا مسئلہ ٹھیک طرح حل نہیں ہوا۔ پاکستان کی حدود میں ابھی تک افغانستان کی سمیں اب تک کام کر رہی ہیں یہ مسئلہ ا بھی تک حل نہیں ہوا ۔

انٹیلی جنس رپورٹوں کی بنیاد پر واقعہ سے قبل گرفتاریاں کیوں نہیں کی جاتیں۔ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی پارلیمنٹ کی تشکیل دی جائے تاکہ دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہاکہ عجب بات ہے کہ جس کی ذمہ داری ہوتی ہے بڑی آسانی سے دوسروں کو شفٹ کی جاتی ہے۔ ساڑھے 3 سال قبل لاء اینڈ آرڈر کی کیا صورتحال تھی سب کو پتہ ہے اس میں خود بعض جماعتیں ملوث تھیں۔

عدالتوں نے یہ با ت کہی کہ جماعتوں کے عسکری ونگ ہیں اور بھتہ لیتے ہیں۔بتایا جائے پہلی دہشت گرد تنظیم ال ذوالفقار کس نے بنائی تھی۔ پی آئی اے کا جہا ز کس نے ا غوا کیا تھا۔اپوزیشن کو مکاری نہیں کی جانی چاہیے جائز بات کرنی چاہیے۔ دہشت گردی کا مسئلہ چوہدری نثار کا نہیں قومی مسئلہ ہے۔ سی پیک کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں۔ دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے سے بچنا چاہیے۔ قومی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں۔ ہم نے ساڑھے 3 سال میں حکومت نے کام کیا۔ آج بھی اپنے صوبوں کو نہیں دیکھا جا رہا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ صوبے اپنا کام کریں تو چوہدری نثار کو الزام دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور بھی باتیں کی جا سکتی ہیں آئندہ اگر بات ہوئی تو وہ بتائوں گا۔…(رانا+و خ)