میڈیاہائپ سے دباؤمیں آکرفیصلے نہیں کرتے۔چیف جسٹس انورظہیرجمالی

تمام عدالتیں آزاد ہیں کسی ادارے کومقررہ حد سے تجاوزاوردوسرےکی حدود میں مداخلت کی اجازت نہیں، لاہورہائیکورٹ‌کوعدلیہ میں‌ایک مقام حاصل ہے،لاہورپنجاب کی تہذیب وتمدن کامرکزہے،ہماری سوچ ایک ہونی چاہئے،ہمیں پہلے قانون خود پرلاگو کرنا ہوگا۔چیف جسٹس سپریم کورٹ کالاہورہائیکورٹ‌کی150سالہ تقریب سے خطاب

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ ہفتہ 10 دسمبر 2016 15:39

میڈیاہائپ سے دباؤمیں آکرفیصلے نہیں کرتے۔چیف جسٹس انورظہیرجمالی

لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔10دسمبر2016ء) :سپریم کورٹ‌کے چیف جسٹس انورظہیرجمالی نے کہاہے کہ میڈیاہائپ سے دباؤمیں آکرفیصلے نہیں کرتے،لاہورپنجاب کی تہذیب وتمدن کامرکزہے،لاہورہائیکورٹ‌کوعدلیہ میں‌ایک مقام حاصل ہے۔ انہوں نے لاہورہائیکورٹ‌کی150سالہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لاہورہائیکورٹ نے انصاف کی فراہمی میں گرانقدر خدمات انجام دیں۔

لاہورہائیکورٹ نے انصاف کی فراہمی میں گرانقدر خدمات انجام دیں۔انہوں نے کہا کہ برصغیر میں مسلمانوں کی تاریخ درخشاں اور تابناک رہی ہے۔لاہور پنجاب کی تہذیب و تمدن کا مرکز ہے۔سرسید جیسے لوگوں نے عوام میں آزادی کا شعور پیدا کیا۔انہوں نے کہاکہ ہماری سوچ ایک ہونی چاہئے۔ہمیں پہلے قانون خود پر لاگو کرنا ہوگا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ لاہور ہائی کورٹ سے ہمیں ماضی میں بے شمار عظیم قانون دان اور جج حضرات حاصل ہوئے ہیں جو کہ علم و دانش، سمجھ بوجھ اور عقل و دانائی میں اپنی مثال آپ رہے ہیں۔

ان میں سے کچھ نام جو میرے ذہن میں آتے ہیں ان میں جسٹس (ر)سر عبدالرشید، جسٹس (ر)اے آر کارنیلیس، جسٹس (ر) شکور عبدالسلام، جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال، جسٹس (ر) میاں اللہ نوازسے لے کر عدالت عظمیٰ کے موجود جج حضرات شامل ہیں۔جن کی قانون کے بارے میں سمجھ بوجھ، کام کی لگن اور خدمات سے آپ سب لوگ بخوبی آگاہ ہیں۔ اس ملک میں نظامِ انصاف کے ارتقاء میں ان حضرات کی خدمات کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتابلکہ یہ ہمارے لئے ایک مشعل راہ ہیں۔

انہوں نے کہاکہ لاہور ہائی کورٹ کو ایک اور وجہ سے بھی منفرد مقام حاصل ہے ۔ وہ یہ کہ یہ لاہور جیسے تاریخی شہر میں واقع ہے جو کہ پنجاب کی تہذیب و تمدن اور ثقافت کا مرکز ہے۔ لاہور کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اسے نہ صرف موجودہ دور میں اہمیت حاصل ہے بلکہ ماضی کے ہر دور میں نہایت اہمیت کا حامل رہا ہے۔یہ نہ صرف تاریخ کا آئینہ دار ہے اوردورِ حاضر کا عکاس ہے بلکہ یہ قدیم اور جدید ادوار کی تہذیب و تمدن کا حسین امتزاج بھی پیش کرتا ہے۔

تقریب کی مناسبت سے میں یہاں بیان کرتا چلوں کہ اس قسم کی تقریبات کا انعقاد محض رسمی نوعیت کے طور پر نہیں ہوتا بلکہ اداروں کی ترقی میں یہ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ان سے نہ صرف ہمیں کسی ادارے کی ماضی کی کارکردگی کو جانچنے کا موقع ملتا ہے بلکہ ہم اس ادارے کی سابقہ منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کے سلسلے میں ہونے والی کاوشوں کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔

یوں جہاں اس ادارے کے ماضی میں کئے گئے اچھے کاموں کی ستائش کا موقع ملتا ہے ساتھ ہی ساتھ ہمیں اس ادارے کو در پیش مشکلات اورمسائل کو سمجھنے اور باہمی مشاورت کے ذریعے ان کا حل تلاش کرنے کے سلسلے میں اورمستقبل کی بہتر انداز میں منصوبہ بندی کرنے کا موقع بھی ملتا ہے۔اس طرح کوئی بھی ادارہ اپنی ماضی کی کوتاہیوں اور ناکامیوں کا جائزہ لے کر در پیش مشکلات سے بہتر انداز میں نبردآزما ہو سکتا ہے۔

خصوصاً فراہمی انصاف سے متعلقہ اداروں میں ہونے والی اس قسم کی تقریبات میں بنچ اور بار کے اراکین کو مل بیٹھنے اور مشاورت کا موقع ملتا ہے ۔ یوں نظامِ انصاف کو در پیش مشکلات کو جاننے اور ان کا حل تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے جس کا براہِ راست فائدہ عوام کو حاصل ہوتا ہے۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ برصغیر میں مسلمانوں کی تاریخ درخشاں اور تابناک رہی ہے۔

اس کی ابتداء محمد بن قاسم سے ہوئی جب انہوں نے یہاں کے ہندو مہاراجہ کو شکست دے کر مظلوم مسلمانوں کی داد رسی کی۔ بعد ازاں بارہویں صدی عیسوی میں غوری، خلجی ، تغلق اور لودھی حکمرانوں سے ہوتے ہوئے سولہویں صدی میں پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے پہلی باقاعدہ اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی جو کسی نہ کسی صورت میں انیسویں صدی تک حیدر علی اور ٹیپو سلطان کی حکومت کی صورت میں قائم رہی۔

انگریز جو کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں تجارت کی غرض سے یہاں آئے تھے محلاتی سازشوں اور یہاں کے ابتر حالات کی وجہ سے اپنی فوج کو مضبوط کرنے میں کامیاب ہوئے اور اس طرح انہوں نے اسلامی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ ہندو مہاراجوں اور سیاسی راہنماؤں نے انگریزوں کا ساتھ دے کر مغل حکومت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ انگریز دورِ حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ نہ صرف انگریزوں نے بلکہ ہندوؤں نے ظلم اور زیادتی کا برتاوٴ کیااور مسلمانوں میں احساس محرومی نے جنم لیا جس نے نظریہ پاکستان کی بنیاد رکھی اور ابتداء میں انگریزوں کی غلامی سے آزادی کے حصول کی سوچ نے جنم لیا۔

سر سید احمد خان جیسے قابل لوگوں نے عوام میں غلامی سے نجات کا شعور پیدا کیا۔ علامہ اقبال نے اسے ایک فلسفیانہ تصور دیا اور بعد ازاں قائدِ اعظم محمد علی جناح نے سیاسی جستجو کے ذریعے اس کے حصول کو ممکن کر دکھایا۔ انہوں نے کہاکہ بنیادی نظریہ جس نے قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا وہ یہ تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک ایسا ملک ہونا چاہئے جہاں وہ آزادی اور خود مختاری کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکیں۔

جہاں شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں ذات پات، رنگ و نسل اور عقیدہ و مذہب کی بنیاد پر نا انصافی نہ ہو۔ جہاں قانون کی حکمرانی ہو اور انصاف کا بول بالا ہو۔ جیسا کہ حضرت قائد اعظم نے 11 اگست1947ء کو آئین ساز اسمبلی کے اپنے صدارتی خطاب میں معاشرے کو در پیش مسائل اور ان کے حل کے سلسلے میں حکومت کی ذمہ داری کو بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ” حکومت کی پہلی ذمہ داری ہے کہ وہ امن و امان کو یقینی بنائے تا کہ عوام کی زندگی، جائیداد اور مذہبی عقائد کی مکمل حفاظت ہو۔

میرے نزدیک دوسری اہم بات یہ ہے کہ سب سے بڑی لعنت جس سے انڈیا متاثر ہے ۔وہ رشوت ستانی اور بدعنوانی ہے۔ در حقیقت یہ ایک زہر ہے۔ ہمارے لئے اس سے آہنی ہاتھ سے نمٹنا ضروری ہو گا اور مجھے امید ہے کہ آپ اس سلسلے میں ضروری اقدامات اٹھائیں گے جیسے ہی اس اسمبلی کے لئے ایسا کرنا ممکن ہو گا۔ دوسری بڑی لعنت بلیک مارکٹنگ ہے ۔ آج کے دور میں، جب کہ یہ ایک سنگین معاشرتی جرم کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔

آپ کے لیے ضروری ہے کہ اس آفت سے نبردآزما ہوں۔ میرے نزدیک ایسے لوگوں کو سخت سزا ملنی چاہئے ۔ اگلی چیز جو میرے ذہن میں آ رہی ہے وہ ہے اقربا پروری اور مفاد پرستی۔ یہاں میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں کبھی بھی اقربا پروری، مفاد پرستی اور اثر و رسوخ ، چاہے براہِ راست یا بالواسطہ طور پر مجھ پر ڈالا جائے، برادشت نہیں کروں گا۔ “قائد اعظم کی سوچ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے قرار دادِ مقاصد کے ذریعے جسے بعد میں آئین کے آرٹیکل 2A کے ذریعے آئین کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہے میں کہا گیا ہے کہ” ہم جمہورِ پاکستان ۔

بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے اس اعلان سے وفاداری کے ساتھ کہ پاکستان عدل عمرانی کے اسلامی اصولوں پر مبنی ایک جمہوری مملکت ہو گی،اس جمہوریت کے تحفظ کے لئے وقف ہونے کے جذبے کے ساتھ جو ظلم و ستم کے خلاف عوام کی انتھک جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہوئی ہے، اس عزم بالجزم کے ساتھ کہ ایک نئے نظام کے ذریعے مساوات پر مبنی معاشرہ تخلیق کر کے اپنی قومی اور سیاسی وحدت اور یک جہتی کا تحفظ کریں۔

“انہوں نے کہا کہ ان مقاصد کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے اور نظامِ حکومت کو موثر انداز میں چلانے کو یقینی بنانے کے لئے آئینِ پاکستان میں اختیارات کی تقسیم کا اصول وضع کیا ہے ۔ تقسیم اختیارات کے ذریعے اداروں کے مابین تحدید و توازن کا نظام قائم ہوتا ہے جو کہ جمہوریت کی اساس ہے ۔ اس اصول کے تحت مقننہ ، انتظامیہ اور عدلیہ کو وضع کردہ اختیارات تفویض کئے گئے ہیں۔

کسی بھی ادارے کو اپنی مقررہ حد سے تجاوز کرنے اور دوسرے ادارے کی حدود میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔اسی طرح کوئی بھی ادارہ مطلق العنان نہیں بن سکتا جو کہ قانون کی حکمرانی کی بنیادی شرط ہے۔ البتہ عدلیہ کو عدالتی نظر ثانی کے تحت اس بات کا اختیار تفویض کیا گیا ہے کہ وہ مقننہ کے بنائے ہوئے قانون اور انتظامیہ کی کسی بھی کارروائی کا جائزہ لے اور اگروہ قانون یا آئین کی کسی شق سے متصادم ہو یا بنیادی حقوق پر قدغن عائد کرتا ہو تو اُسے کالعدم قرار دیں۔

اس سلسلے میں عدلیہ نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ اپنے ان اختیارات کا محدود استعمال کرے اورصرف کسی سنگین آئینی یا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی صورت میں ہی کوئی ایسا حکم جاری کرے۔ البتہ ایسا صرف عوام کی بہبود کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اور معاشرے میں امن و امان کے قیام کو یقینی بنانے کے لئے کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ معاشرے میں خوشحالی اور معاشی ترقی کے فروغ کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں انصاف کی فراہمی اور گڈ گورننس قائم ہو۔

ایسا صرف اُسی صورت میں ممکن ہے جب آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی ہو اور میرٹ کے اصول پر عمل درآمد ہو ۔یہاں میں افسوس کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نے قائد اعظم کے فرمان کو بھلا دیا ہے جس میں انہوں نے حکومت کی اولین ذمہ داری قرار دیا تھا کہ ملک سے نا انصافی ، رشوت ستانی ، بد عنوانی اور اقربا پروری کے خاتمے کو یقینی بنائے تاکہ ملک میں امن و امان قائم ہو عوام کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔

آج ہم اپنی اس ذمہ داری کو نبھانے میں ناکام ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں لا قانونیت اور دہشت گردی کو فروغ حاصل ہواہے ۔ اگر ہمیں ایک مہذب قوم بننا ہے اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہونا ہے تو ہمیں ان تمام بُرائیوں کا خاتمہ کرنا ہو گا جو ہمارے ملک کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ دیگر ادارے اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہو جائیں تو عدلیہ پر دہری ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے۔

ایک طرف تو اسے فریقین کے مابین تنازعات اور مقدمات کا فیصلہ کرنے کی آئینی اور قانونی ذمہ داری ادا کرنی ہوتی ہے۔ دوسری طرف اسے عوامی بہبود کے معاملات میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے بھی کارروائی کرنی پڑتی ہے۔ جہاں بھی عوام کے بنیادی حقوق کی پامالی ہو سب کی نظریں اعلیٰ عدلیہ پر مرکوز ہو جاتی ہیں۔ عدالت عالیہ لاہور نے ہمیشہ عوام کے مسائل کے حل کے لئے اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داری کو بطریقِ احسن ادا کیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ یہاں میں یہ باور کروانا چاہتا ہوں کہ فراہمیِ انصاف کے سلسلے میں عدلیہ کو اپنی ذمہ داری بطریقِ احسن ادا کرنے کے سلسلے میں بار کی معاونت اور تعاون درکار ہوتا ہے۔ جب تک بار عدلیہ کے شانہ بشانہ کھڑی نہ ہو اور اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں بھر پور انداز میں ادا نہ کرے فوری اور سستے انصاف کی فراہمی نا ممکن ہے ۔ لہٰذا ممبرانِ بار خصوصاً عہدے دارانِ بار پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ فراہمیِ انصاف میں در پیش مشکلات کے حل کے لئے اور سائلین کی مشکلات کے تدارک کے سلسلے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔

۔ نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ سے لے کر تمام ضلعی عدالتیں خود مختار اور آزاد ہیں ۔کسی کو خوش کرنے یامیڈیا ہائپ کی وجہ سے دباوٴمیں آکرفیصلے نہیں کرسکتے چیف جسٹس نے کہاکہ عدلیہ کسی طرح کسی طور پر بھی کسی قسم کے دباوٴکا شکار نہیں۔ آخر میں میں ایک بار پھراس اہم موقع پر لاہور ہائی کورٹ لاہور سے منسلک تمام افراد کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آنے وقتوں میں یہ عدالت اپنی روایات کوبرقرار رکھے گی بلکہ پہلے سے بھی بہتر اور موثر طریقے سے فراہمیِ انصاف کو یقینی بنائیگی۔ انہی الفاظ کیساتھ میں آپ سے اجازت چاہتا ہوں۔

متعلقہ عنوان :