صدر بننے پر اشرف غنی نے پاکستان سے دوستی کی کوشش کی تھی مگر حکومت نے موقع گنوادیا،حناربانی کھر

جس وقت اشرف غنی نے اقتدار سنبھالا اس وقت افغانستان میں پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی کوشش کرنا غیر مقبول اقدام تھا ، اشرف غنی نے اس کے باوجود ایسا کرنے کی کوشش کی، ’اشرف غنی وہ چیزیں کرنے پر راضی ہوئے تھے جو کہ پاکستان کی دیرینہ خواہشات تھیں،صدر غنی یہ مان گئے تھے کہ وہ انڈیا سے ہارڈوئیر نہیں خریدیں گے، افغان کیڈٹس کو پاکستان ملٹری اکیڈمی میں تربیت دینے پر تیار ہو گئے تھے،ٹرانزٹ کی فیس کم کرنے پر تیار تھے سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھرکابرطانوی نشریاتی ادارے کوانٹرویو

اتوار 11 دسمبر 2016 11:20

صدر بننے پر اشرف غنی نے پاکستان سے دوستی کی کوشش کی تھی مگر حکومت نے ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 11 دسمبر2016ء) سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھرنے کہاہے کہ افغان صدر اشرف غنی جب حکومت میں آئے تو انھوں نے بے حد کوشش کی کہ پاکستان کے قریب ہوسکیں تاہم پاکستان نے وہ موقع گنوا دیا،جس وقت اشرف غنی نے اقتدار سنبھالا اس وقت افغانستان میں پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی کوشش کرنا غیر مقبول اقدام تھا تاہم اشرف غنی نے اس کے باوجود ایسا کرنے کی کوشش کی۔

برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے حنا ربانی کھر نے کہا کہمیرا یہ ماننا ہے اور یقین ہے کہ جو موقع صدر اشرف غنی نے صدر بننے کے بعد پاکستان کو دیا، اس حکومت نے اسے کھو دیا۔اس سوال کے جواب میں کہ صدر اشرف غنی پاکستان کے کون سے مطالبات یا خواہشات ماننے پر تیار ہوئے تھے، حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ ’اشرف غنی وہ چیزیں کرنے پر راضی ہوئے تھے جو کہ پاکستان کی دیرینہ خواہشات تھیں۔

(جاری ہے)

صدر غنی یہ مان گئے تھے کہ وہ انڈیا سے ہارڈوئیر نہیں خریدیں گے، افغان کیڈٹس کو پاکستان ملٹری اکیڈمی میں تربیت دینے پر تیار ہو گئے تھے اور اس کے علاوہ ٹرانزٹ کی فیس بھی کم کرنے پر تیار تھے۔ سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ ’جہاں تک بارڈر اور سکیورٹی کا تعلق ہے تو اس میں فوج کا جائز کردار ہے لیکن جہاں تک ’اکنامک اینگیج منٹ‘ کی بات ہے تو یہ سب کچھ حکومت کی ذمہ داری ہے۔

حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ ’پہلے افغان حکومت کو یہ کرنا ہو گا کہ پاکستان میں رہنے والے افغان شہریوں کو وطن واپس لے جائیں، پھر اگر پاکستان میں کچھ لوگ رہ جائیں اور افغان حکومت ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرے تو وہ عین جائز ہے، بالکل اسی طرح جائز ہے جس طرح پاکستان افغانستان سے تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ہمارے بس میں جو کچھ بھی ہے وہ ہم کریں اور اس کے بعد افغانستان سے توقعات رکھیں۔ پاکستان ہزاروں میل دور ممالک، چاہے وہ برطانیہ ہو یا امریکہ سے تو تعلقات بہتر بنانے کے لیے وسائل خرچ کرتا ہے لیکن جب خطے میں آئیں اور ہمسایہ ممالک کی بات کریں تو تعلقات میں وہ جوش اور ہم آہنگی نظر نہیں آتی۔ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں افغانستان کے ساتھ تعلقات کی جو کوششیں کیں موجودہ حکومت اسے آگے بڑھانے میں ناکام رہی ہے۔جہاں ہم چھوڑ کے گئے تھے، حالات وہاں سے بہت دور چلے گئے ہیں۔