ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کو عام کرنے کے فیصلے سے قبل اس کا جائزہ لوں گا

وزیراعظم محمد نواز شریف کی بوسنیا کے دورہ پر ہمراہ صحافیوں سے ناشتہ پر بات چیت

جمعرات 22 دسمبر 2016 16:05

ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کو عام کرنے کے فیصلے سے قبل اس کا جائزہ لوں ..
سراجیوو (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 دسمبر2016ء) ۔ 22 دسمبر (اے پی پی) وزیراعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ وہ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کو عام کرنے کے فیصلے سے قبل اس کا جائزہ لیں گے۔ بوسنیا کے دورہ پر جانے والے صحافیوں سے ناشتہ پر بات چیت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ وطن واپسی پر وہ اس رپورٹ کا جائزہ لیں گے۔ وزیراعظم ان دنوں بوسنیا کے تین روزہ سرکاری دورہ پر ہیں۔

جب ان سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری کی وطن واپسی کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ سچ پوچھیں تو مجھے ان کی وطن واپسی کی خوشی ہے۔ انہیں واپس آ کر اپنی پارٹی کے امور دیکھنے چاہئیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ سیاسی روابط کے حق میں ہیں اور انہوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط بھی کئے۔

(جاری ہے)

وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کبھی بھی حکومتی نظام کو خراب کرنے کی کوشش نہیں کی۔

پیپلز پارٹی کے ساتھ اختلافات کے باوجود ان کی جماعت نے دھرنوں اور احتجاج کی پالیسی اختیار نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ 2016ء ان کی حکومت کے لئے ایک مشکل سال تھا تاہم یہ اچھے انداز میں اختتام پذیر ہونے جا رہا ہے۔ ملک کے معاملات چلانا ہر ایک کی ذمہ داری نہیں اور بالخصوص دھرنوں کی عادت سے مجبور لوگوں کا یہ کام نہیں۔ پرویز مشرف کا نام لئے بغیر وزیراعظم نے کہا کہ سات نکاتی ایجنڈے نے کوئی مثبت تبدیلی نہیں لائی اور وہ قوم کو بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں مبتلا کر کے چھوڑ گئے۔

وزیراعظم نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ ان کی حکومت توانائی کا بحران اس لئے ختم کرنا چاہتی ہے کہ وہ آئندہ عام انتخابات جیت سکے۔ دراصل ان کی حکومت تمام مسائل حل کرنا چاہتی ہے اور حکومت ہر شعبہ میں اصلاحات لانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ نواز شریف نے کہا کہ وہ اپنے پارٹی منشور پر عمل پیرا ہونے کے لئے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں 49 جدید ہسپتالوں کی تعمیر کے منصوبے کو فعال انداز میں اپنایا جا رہا ہے جبکہ کئی اضلاع کے عوام کو ہیلتھ کارڈ بھی جاری کئے گئے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ ایل این جی اور سولر پلانٹس کے منصوبوں میں شفافیت کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ قومی خزانے میں 100 ارب روپے کی بچت کی گئی ہے۔ چار ریگولیٹری اتھارٹیوں کو حکومتی کنٹرول میں کرنے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان ریگولیٹری باڈیوں کا مقصد پرائیویٹ سیکٹر کو ریگولیٹ کرنا تھا لیکن انہوں نے حکومت کو ریگولیٹ کرنا شروع کر دیا۔ ان ریگولیٹری باڈیز کے اس طرز عمل کی وجہ سے مختلف منصوبوں میں تاخیر ہوئی جو کہ کسی طور پر بھی قابل برداشت نہیں ۔