مرکزکو طویل عرصہ کے بعد فاٹا کی ترقی اور مالی ضروریات کا خیال آیا ہے،مظفرسید

مجموعی قابل تقسیم محاصل سے سات تا آٹھ فیصد منہا کرکے فاٹا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کیلئے مختص کرنے کی تجویز لائی گئی ہے جس میں صرف خیبر پختونخوا کا سالانہ نقصان 21ارب روپے سے زیادہ ہے،وزیرخزانہ خیبرپختونخوا

پیر 26 دسمبر 2016 22:20

�شاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 دسمبر2016ء) خیبر پختوپختوا کے وزیر خزانہ مظفر سید ایڈوکیٹ نے اس بات کو افسوسناک قرار دیا ہے کہ مرکزکو طویل عرصہ کے بعد فاٹا کی ترقی اور مالی ضروریات کا خیال آیا ہے اور مجموعی قابل تقسیم محاصل سے سات تا آٹھ فیصد منہا کرکے فاٹا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کیلئے مختص کرنے کی تجویز لائی گئی ہے جس میں صرف خیبر پختونخوا کا سالانہ نقصان 21ارب روپے سے زیادہ ہے حالانکہ حالیہ این ایف سی اجلاس میں اسکی تین فیصد تجویز تھی لگتا ہے قومی یکجہتی میں بگاڑ کیلئے سازشیں شروع ہونے کو ہیں ہمارا واضح موقف ہے کہ مرکز اپنے حصے کے وسائل سے فاٹا اور گلگت بلتستان سمیت ملک کے تمام علاقوں کی فراخدلانہ مدد کرے مگر ہمیں یہ سب کچھ صوبوں کے وسائل سے منظور نہیں کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ علاقے وفاق کی علمداری رہیں مگر انکے اخراجات صوبے اٹھائیں جو پہلے ہی گوناگوں مالی وسائل سے دوچار ہیں جبکہ وفاقی حکومت اپنی شاہ خرچیاں اسی شد و مد کے ساتھ جاری رکھے۔

(جاری ہے)

پشاور میں صوبے کی توانائی اور ترقیاتی ضروریات سے متعلق جائزہ اجلاس کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے غیر رسمی بات چیت میں انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں ہمارا واحد صوبہ ہے جسے مالی وسائل کے لحاظ سے کلی طور پر مرکز کا دست نگر بنا دیا گیا ہے ہمارے بیش بہا قدرتی و معدنی ذخائر سے وفاق کو کھربوں کی آمدن ہوتی ہے جو مرکز کی مجموعی وسائل کا چالیس فیصد سے زائد ہے مگر ہم اپنے پچیس فیصد مقامی وسائل کا بندوبست بھی نہیں کر پا رہے اور ہماری صوبائی ضروریات سے مجرمانہ چشم پوشی بلکہ طوطا چشمی اختیار کی جا رہی ہے دوسری طرف وفاق کی ترقی محض پنجاب بالخصوص لاہور کے گرد کھومتی نظر آرہی ہے وفاقی بجٹ، این ایف سی، ایکنک اور سی ڈی ڈبلیو پی اور پی ایس ڈی پی حتیٰ کہ سی پیک کے بیشتر وسائل اور میگا سکیمیں پنجاب کی نذر کی جا رہیں تاہم زیادہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے ملکی و غیرملکی قرضوں کا حجم بھی اتنابڑھا دیا ہے کہ اب قومی ادارے اور شاہراہیں تک گروی رکھنا شروع کی جا رہی ہیں اور یہ سب کچھ صرف پنجاب حکومت کی آشیر باد کیلئے ہے جو قومی یکجہتی کیلئے انتہائی نقصان دہ ہے مظفر سید ایڈوکیٹ نے اپنا یہ الزام بھی دہرایا کہ وفاق نویں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کی تشکیل میں غیر سنجیدہ ہے حالانکہ یہ اولین آئینی تقاضا ہے صوبے کو اب تک 20کھرب روپے سے محروم کیا گیا مرکز محض وقت گزاری کیلئے اجلاس بلانے اور پرانا ایوارڈ اگلے سال بھی نافذ کرنے کے چکر میں ہے اسلئے بہتر ہے کہ نئے ایوارڈ کے اعلان تک صوبوں کو خصوصی پیکیج دے ورنہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ہم ایجی ٹیشن شروع کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں کیونکہ موجودہ صورتحال کو برقرار رکھنا صوبوں کے ساتھ بڑا ظلم اور عوام کا معاشی قتل تصور ہو گامرکز کا اولین فرض مستقبل کے فیصلوں سے قبل صوبوں کے نقصانات اور مالی مشکلات کا ازالہ ہے ہم نے نئے ایوارڈ کی تشکیل تک وفا ق سے خصوصی پیکیج کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ نیا ایوارڈ بھی مسئلہ کشمیر بنتا جا رہا ہے اور سالوں بعد بھی شاید نتیجہ صفر ہو ہم نے مرکز پر واضح کیا ہے کہ صوبے میں امن و امان اور قدرتی آفات سے تباہ حال انفراسٹرکچر کے علاوہ لاکھوں افغان مہاجرین اور قبائل ایجنسیوں کے آئی ڈی پیز کے قیام کے سبب صوبے کو درپیش چیلنجوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جس کا ازالہ ہمارے محدود وسائل میں ممکن نہیں اگر اٹھارہویں آئینی ترمیم کے مطابق نئے این ایف سی کا اعلان تاخیر کا شکار ہو اور17سال پرانے ساتویں این ایف سی ایوارڈ کو جاری رکھنا مقصود ہو تو کم از کم سیکورٹی صورتحال اور انفراسٹرکچر کی بہتری کیلئے خیبر پختوپختواکو خصوصی پیکیج دیا جائے حالانکہ وفاق دیگر صوبوں کو فراخدلانہ پیکیج دیتا رہا ہے نوے فیصد وفاقی محاصل پر انحصار کرنے والے اس صوبے کی دگرگوں حالت سب پر واضح ہے مظفر سید ایڈوکیٹ نے کہا کہ کنکرنٹ لسٹ کے خاتمے اور محکموں کی منتقلی کی وجہ سے بھی صوبے پر مالی بوجھ ہزار گنا بڑھ چکا ہے صوبوں کے پرزور مطالبے کے باوجود مرکز نئے ایوارڈ کے اعلان سے کنی کترا رہا ہے پچھلے این ایف سی اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ صوبائی خودمختاری کے بعد18ویں آئینی ترمیم، نیشنل ایکشن پلان، غیرملکی امداد کے شفاف استعمال کیلئے پائیدار ترقی کے اہداف اور سی پیک کے ممکنہ اثرات کے مطابق ایوارڈ کی تشکیل ہوگی مگر وفاق کی طرف سے کوئی پیشرفت نہ ہو سکی دوسری طرف وفاق کے اربوں ڈالر غیرملکی قرضے دوچند اور افراط زر میں مسلسل اضافہ ہوا صوبے کو اب تک صرف 35فیصد واجبات ملے ہیں جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہیں دیگر کئی مدات کے علاوہ تیل و گیس سیس کی مد میں 29ارب روپے اور 1991 کے پانی تقسیم معاہدے کے تحت 119ارب روپے کی ادائیگی بھی باقی ہے انہوں نے واضح کیا کہ صوبے کی مالیاتی حالت کی بہتری کیلئے ٹھوس اور دور رس اقدامات وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکے ہیں صوبے میں بیروزگاری، افغان مہاجرین و آئی ڈی پیز،دہشت گردی اور امن و امان کے مسائل کی وجہ سے غربت، بیروزگاری اور پسماندگی انتہا کو چھونے لگی ہے جبکہ یہاں کے عوام میں احساس محرومی کا گراف بھی حدسے تجاوز کر گیا جس کا وفاق کو احساس ہونا چاہئے اور اسکی تلافی آئین کے مطابق حقوق کی جلد از جلد ادائیگی سے ہی ممکن ہے ہمارے مالی نقصانات میں کئی گنا اضافہ ہوا دہشت گردی کی مد میں فنڈز کے صرف ایک فیصد کی فراہمی ہماری کمزور معیشت کے ساتھ کھلا مذاق ہے جبکہ اس صوبے کا معاشی استحکام پوری قومی ترقی کا ضامن بنے گا۔

متعلقہ عنوان :