قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی صنعت و پیداوار کا اجلاس، سٹیل ملز کی نجکاری بارے بحث ، چیئرمین کمیٹی اسد عمر ‘ چیئرمین نجکاری کمیشن زبیر عمر پر برس پڑے

جو کوئی بھی کہتا ہے سٹیل مل نہیں چل سکتی وہ غلط کہتا ہے‘ 2001 سے 2008 ء تک سٹیل مل نے 19.4 ارب روپے کا منافع کما کر دیا، اس کے بعد سیاسی مداخلت اور پروفیشنل ازم کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے بیڑا غرق ہوکر رہ گیا‘ اسدعمر حکومت سٹیل مل کی نجکاری کرنے یا اسے لیز پر دینے کے حوالے سے واضح فیصلہ کرے ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کو روکنا سمجھ سے بالا تر ہے،جو اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھا تا ہے تو اسے شوکاز نوٹسز اور ایف آئی آر کا سامنا کرنا پڑتا ہے،چیئرمین قائمہ کمیٹی

بدھ 4 جنوری 2017 19:18

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 04 جنوری2017ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار میں پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری بارے بحث کے دوران چیئرمین کمیٹی اسد عمر ‘ چیئرمین نجکاری کمیشن زبیر عمر پر برس پڑے‘ جو کوئی بھی کہتا ہے کہ سٹیل مل نہیں چل سکتی وہ غلط کہتا ہے‘ 2001 سے 2008 ء تک سٹیل مل نے 19.4 ارب روپے کا منافع کما کر دیا۔

مگر اس کے بعد سیاسی مداخلت اور پروفیشنل ازم کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے بیڑا غرق ہوکر رہ گیا‘ حکومت سٹیل مل کی نجکاری کرنے یا اسے لیز پر دینے کے حوالے سے واضح فیصلہ کرے۔ جبکہ سٹیل مل کے ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کو روکنا سمجھ سے بالا تر ہے۔ جو اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھا تا ہے تو اسے شوکاز نوٹسز اور ایف آئی آر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

(جاری ہے)

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کا اجلاس چیئرمین کمیٹی اسد عمر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ اس موقع پر بریفنگ دیتے ہوئے چیئرمین نجکاری کمیشن زبیر عمر نے کہا کہ پاکستان سٹیل مل کو لیز پر دینے کے حوالے سے ایران اور ایک پاکستان کی کمپنی سے بات چیت چل رہی ہے۔ سٹیل مل کی 14500 ایکڑ زمین سندھ حکومت کی مرضی کے بغیر فروخت نہیں کر سکتے۔

جبکہ سٹیل مل کے ملازمین کو حکومت نے بیل آئوٹ پیکج کے تحت تنخواہیں دے رہی ہے۔ اس موقع پر کمیٹی کے ممبر قیصر احمد شیخ نے کہا کہ میں گزشتہ تین سالوں سے کہہ رہا ہوں کہ سٹیل مل کی نجکاری کردی جائے اب حکومت اسے لیز پر دینے کا سوچ رہی ہے۔ اس سٹیل مل کو لیز پر لینے کو کوئی تیار نہیں ہوگا۔ جبکہ ملازمین کی ماہانہ تنخواہ پر 60 کروڑ روپے خرچ ہورہے ہیں جس سے حکومت پر بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سٹیل مل کو چلانے کیلئے 70 سے 80 ارب روپے درکار تھے مگر حکومت اس کی نجکاری پر تلی ہوئی ہے۔ 2001 سے 2008 تک سٹیل مل نے 19.4 ارب روپے کا منافع کما کر دیا۔ اس کے بعد سیاسی مداخلت اور پروفیشنل ازم کو نظر انداز کرنے سے مل کے معاملات بگڑتے گئے اس دوران چیئرمین نجکاری کمیشن نے کہا کہ کابینہ کی کمیٹی نے 2014 ء میں سٹیل مل کی نجکاری کی منظوری دے دی تھی لیکن بعد میں سندھ حکومت نے اس کوخریدنے میں دلچسپی ظاہر کی۔

سندھ حکومت کے ساتھ ایک سال تک مل کے حوالے سے مذاکرات ہوتے رہے ان کی جانب سے مثبت جواب نہ ملنے پر جولائی 2016 ء میں اس کی نجکاری کرنے کی دوبارہ ایڈ دے دی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پاکستان سٹیل مل کو نجکاری کے ساتھ ساتھ لیز پر دینے کا بھی پروگرام بنا رہی ہے۔ (شہزاد پراچہ)