پانامہ کیس ،شادی شدہ خاتون زیر کفالت کی تعریف میں نہیں آتی، وکیل مریم صفدر

2011 کے ٹیکس فارم میں مریم نواز کو زیر کفالت دکھایا گیا، ہمیں رقم منتقلی کے ذرائع بتائے جائیں ،بتا نا ہوگا تحفوں کے علاوہ مریم کی آمدن کیا ہی ،جسٹس اعجاز الاحسن ہم آپ کی معاونت سے قانون کی تشریح کر سکتے ہیں، اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام پر جائیداد رکھیں تو کیا وہ بے نامی ہو گی ، حسین نواز کے اپنے والد کو دیئے گئے تحائف کی تاریخیں بتائیں، زیر کفالت معاملہ انکم اور اخراجات کے پیمانے پر جانچا جاسکتا ہے، ساس کی طرح حساب نہیں مانگ رہے کہ پیسہ کدھر خرچ ہوا ، جسٹس عظمت سعید شیخ اراضی کی منتقلی اور دیگر دستاویزات پر مطمئن کریں،مریم کے لئے زمین انہی تاریخوں میں خریدی گئی جن میں حسین نے باپ کو تحفے میں رقم دی بظاہر لگتا ہے حسین نواز نے باپ کو رقم تحفے میں دی پھر باپ نے یہ زمین مریم کے لئے خریدی،پھر بیٹی قانونی طور پر جائیداد کی مالک بننے کے بعد رقم باپ کو واپس کرتی ہے، تاریخیں اہم ہیں، رقم کی منتقلی تحائف کی آمد اور جائیداد کی خریداری کی تاریخیں دیکھنی ہیں،جسٹس آصف سعید کھوسہ ، بی ایم ڈبلیو کی فروخت پر اتنا منافع کیسے ہوا ،جسٹس اعجاز افضل خان انکم ٹیکس آفیسر کا کردار نہیں نبھا رہے ۔ہم زیر کفالت ہونے کا معاملہ دیکھ رہے ہیں ،جسٹس گلزار احمد میرے خط پر متعدد سوال اٹھائے گئے ، سوالوں کے جواب میں اپنا مو قف پیش کر رہا ہوں، قطری شہزادے نے لکھا ہے کہ میاں شریف کے میرے والد سے قریبی مراسم تھے،میاں محمد شریف نے 1980 میں بارہ ملین درہم کی سرمایہ کاری کی، 2005ء میں 80 لاکھ ڈالر کی رقم شریف خاندان کو واجب الادا تھی، حسین نواز کی طرف سے ایک اور قطری خط جمع کرادیاگیا 90 میں اتفاق گروپ پاکستان کا بڑا صنعتی گروپ بن گیا تھا، 1999 کے مارشل لا کے بعد تمام ریکارڈ قبضے میں لا لیا گیا، جدہ میں اسٹیل مل کیلئے 5.41 ملین ڈالر کا بندوست دادا نے کیا، التوفیق کمپنی کو 8ملین ڈالر کا قرض الثانی خاندان نے دیا، 2006 میں الثانی خاندان کے ساتھ 12ملین درہم سرمایہ کاری کی سیٹلمنٹ ہوئی، سیٹلمنٹ میں آف شور کمپنیوں کے سرٹیفکیٹ ملے، لندن فلیٹس کی 1993-96 کی ملکیت کا الزام مسترد کرتے ہیں، حسین نواز اور حسن نواز کا جواب

جمعرات 26 جنوری 2017 14:12

پانامہ کیس ،شادی شدہ خاتون زیر کفالت کی تعریف میں نہیں آتی، وکیل مریم ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 26 جنوری2017ء) سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم کی صاحبزادی مریم صفدر کے وکیل شاہد حامد نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کوئی شادی شدہ خاتون والدین کے ساتھ رہے تو وہ زیر کفالت کے دائرے میں آئے گی لیکن زیر کفالت کی کوئی خاص تعریف نہیں، اس میں بزرگ اور بیروزگار افراد کو شامل کیا جاسکتا ہے، زیر کفالت کی تعریف میں بیوی اور نابالغ بچے بھی آتے ہیں، زیر کفالت کے معاملے پر انکم ٹیکس لاگو ہوتا ہے، غیر شادی بیٹی کی ذرائع آمدن نہ ہو تو وہ زیر کفالت ہو گی ۔

جمعرات کو سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کے افراد کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے لئے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

(جاری ہے)

سپریم کورٹ میں پناما کیس کی سماعت کے دوران حسین نواز کی طرف سے ایک اور قطری خط سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا گیا۔سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے خط کے مطابق شہزاد حمد بن جاسم کی طرف سے لکھا گیا ہے کہ مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ میرے خط پر متعدد سوال اٹھائے گئے ہیں۔ ان سوالوں کے جواب میں اپنا مو قف پیش کر رہا ہوں۔ خط کے متن کے مطابق قطری شہزادے نے لکھا ہے کہ میاں شریف کے میرے والد سے قریبی مراسم تھے۔

میاں محمد شریف نے 1980 میں بارہ ملین درہم کی سرمایہ کاری کی۔ یہ سرمایہ کاری نقد کی شکل میں تھی۔ 2005ء میں اسی لاکھ ڈالر کی رقم شریف خاندان کو واجب الادا تھی۔ میاں شریف کی خواہش پر رقم کی سیٹلمنٹ کے سلسلے میں آف شور کمپنیوں کے بیئرر سرٹیفکیٹ حسین نواز کے نمائندے کو دیئے گئے۔ سماعت کے دوران حسین نواز اور حسن نواز نے جواب جمع کرادیا۔

جواب میں کہا گیا ہے کہ 1990 میں اتفاق گروپ پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی گروپ بن گیا تھا۔ 1999 کے مارشل لا کے بعد تمام ریکارڈ قبضے میں لا لیا گیا۔ 2001-02ء میں جدہ میں اسٹیل مل لگائی۔ اسٹیل مل کے لئے 5.41 ملین ڈالر کا بندوست دادا مرحوم نے کیا۔ التوفیق کمپنی کو 8ملین ڈالر کا قرض الثانی خاندان نے دیا۔ 2006 میں الثانی خاندان کے ساتھ 12ملین درہم سرمایہ کاری کی سیٹلمنٹ ہوئی۔

سیٹلمنٹ کے نتیجے میں آف شور کمپنیوں کے سرٹیفکیٹ ملے۔ 2006 میں آف شور کمپنیوں کے سرٹیفکیٹس ملنے پر بہن کو ٹرسٹی بنایا۔ 2006ء میں کمپنی کے پہلے سرٹیفکیٹس منسوخ کراکر نئے جاری کرائے۔ دبئی سٹیل مل کے لئے پاکستان سے سرمایہ باہر نہیں بھیجا گیا۔ لندن فلیٹس کی 1993-96 کی ملکیت کا الزام مسترد کرتے ہیں۔ حسین نواز نے طارق شفیع کا نیا بیان حلفی سپریم کورٹ میں جمع کرایا۔

طارق شفیع کے بیان میں کہا گیا ہے کہ بارہ ملین درہم کی رقم فہد بن جاسم کو جمع کرائی۔ بارہ ملین درہم میاں محمد نواز شریف کے کہنے پر جمع کرائے۔ فہد بن جاسم کاروبار کے لئے دبئی رہتے تھے۔ فہد بن جاسم کو بارہ ملین درہم کی رقم نقد جمع کرائی۔ سماعت شروع ہوئی تو مریم صفدر کے وکیل شاہد حامد نے اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ مریم نواز کے انٹرویو کا ٹراسکرپٹ تیار کر لیا گیا جو عدالت کو فراہم کر دیا جائے گا، مریم نواز نے انٹرویو میں اپنے اوپر لگنے والے تمام الزامات کا جواب دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز کے زیر کفالت نہ ہونے پر دلائل دوں گا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 2011 کے ٹیکس فارم میں مریم نواز کو زیر کفالت دکھایا گیا ۔ شاہد حامد نے جواب دیا کہ اگر کوئی شادی شدہ خاتون والدین کے ساتھ رہے تو وہ زیر کفالت کے دائرے میں آئے گی لیکن زیر کفالت کی کوئی خاص تعریف نہیں۔ اس میں بزرگ اور بیروزگار افراد کو شامل کیا جاسکتا ہے، زیر کفالت کی تعریف میں بیوی اور نابالغ بچے بھی آتے ہیں اور زیر کفالت کے معاملے پر انکم ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔

شاہد حامد نے کہا کہ غیر شادی بیٹی کی ذرائع آمدن نہ ہو تو وہ زیر کفالت ہو گی جس پر جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ انکم ٹیکس قانون میں دیگر کا خانہ زیرکفالت کی کیٹگری ہے، شاہدحامد نے جواب دیا کہ انکم ٹیکس قانون میں مخصوص کیٹگری 2015 میں شامل کی گئی۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ ہم آپ کی معاونت سے قانون کی تشریح کر سکتے ہیں، اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام پر جائیداد رکھیں تو کیا وہ بے نامی ہو گی ۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ حسین نواز کے اپنے والد کو دیئے گئے تحائف کی تاریخیں بتائیں ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ زرعی اراضی کب خریدی گئی ہی شاہد حامد نے کہا کہ والد نے جو رقم دی اس سے اراضی کریدی گئی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا تحفے میں ملنے والی رقم سے اراضی خریدی گئی جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اراضی کی منتقلی اور دیگر دستاویزات پر مطمئن کریں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ مریم کے لئے زمین انہی تاریخوں میں خریدی گئی جن میں حسین نے باپ کو تحفے میں رقم دی بظاہر لگتا ہے حسین نواز نے باپ کو رقم تحفے میں دی پھر باپ نے یہ زمین مریم کے لئے خریدی۔ پھر بیٹی قانونی طور پر جائیداد کی مالک بننے کے بعد رقم باپ کو واپس کرتی ہے۔ شاہد حامد نے کہا کہ اگر جائیداد کی خریداری کی تاریخوں میں غلطی ہے تو یہ کلرکوں کی کوتاہی ہوسکتی ہے۔

کلریکل کوتاہی کے کبھی بھی سنگین نتائج نہیں نکلتے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ تاریخیں بہت اہم ہیں۔ رقم کی منتقلی تحائف کی آمد اور جائیداد کی خریداری کی تاریخیں دیکھنی ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سیل ڈیڈ پہلے سادہ اور پھر بیان حلفی تیار کیا گیا۔ آپ خود بتا دیں کہ تاریخوں میں غلطی کو کیسے دور کیا جائی شاہد حامد نے کہا کہ زمین کی خریداری کی تاریخ اکتوبر اور مارچ کے درمیان کی ہیں جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ ہمیں رقم منتقلی کے ذرائع بتا دیں ۔

شاہد حامد نے کہا کہ تحائف کی تفصیلات (آج ) جمعہ کو جمع کروا دوں گا۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ بی ایم ڈبلیو کی فروخت پر اتنا منافع کیسے ہوا وکیل نے جواب دیا کہ 2006 میں حسن نے لندن میں بی ایم ڈبلوی خریدی اور دبئی بھجوا دی دو سال بعد انہوں نے گاڑی مریم نواز کو تحفے میں دے دی۔ مریم نے 37لاکھ روپے ڈیوٹی ادا کرکے گاڑی حاصل کرلی۔ مریم نے 2011 میں دیوان موٹرز سے نئی گاڑی خریدی دیوان موٹرز نے پرانی بی ایم ڈبلیو کی قیمت 2کروڑ 80لاکھ لگائی۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ نئی گاری خریدنے کے لئے پرانی مجوزہ قیمت پر بیچ دی۔ اس لئے منافع کی رقم آپ کی موکلہ کے پاس نہیں آئی۔ شاہد حامد نے کہا کہ کیپٹن صفدر کی بطور رکن اسمبلی آمدن 8لاکھ 58ہزار تھی۔ میاں بیوی کی مجموعی آمدن 41لاکھ 72 ہزار تھی 3.85 ملین کے اخراجات ہوئے۔ اضافی زرعی زمین خریدنے کے بعد آمدن میں اضافہ ہوا۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا یہ وہی زمین ہے جو والد کی طرف سے تحفے کی رقم سے خریدی جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ نے جو بھی اثاثے ظاہر کئے وہ بطور تحفہ ملے۔

شاہد حامد نے کہا کہ زرعی زمین سے حاصل آمدن مریم کی اپنی آمدن ہے ایک لاکھ 46ہزار روپے کی آمدن زرعی زمین کے علاوہ ہوئی۔ شاہد حامد نے مریم نواز کی 2010 کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ پیش کردی ۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ہم انکم ٹیکس آفیسر کا کردار نہیں نبھا رہے ۔ہم زیر کفالت ہونے کا معاملہ دیکھ رہے ہیں ۔وکیل نے کہا کہ اگر مریم انکم ٹیکس ریٹرن فائل کررہی ہیں تو زیر کفالت کیسے ہوسکتی ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بتا نا ہوگا تحفوں کے علاوہ مریم کی آمدن کیا ہی شاہد حامد نے کہا کہ مریم کی زرعی آمدن 2013 میں 69لاکھ روپے تھی۔ مریم نواز ہر سال گھریلو اخراجات میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ زیر کفالت معاملہ انکم اور اخراجات کے پیمانے پر جانچا جاسکتا ہے۔ ساس کی طرح حساب نہیں مانگ رہے کہ پیسہ کدھر خرچ ہوا ۔

شاہد حامد نے کہا کہ شمیم ایگری فارم کے اخراجات مشترکہ طور پر برداشت کئے جاتے ہیں۔ 2013 میں مریم نواز نے پچاس لاکھ کے اخراجات برداشت کئے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ یہ پتا نہیں کہ مریم نواز نے 2012 میں کتنے اخراجات برداشت کئے۔ 2013 میں اخراجات پچاس لاکھ تھے 2012 میں صفر نہیں ہونا چاہیں۔ 2012 میں مریم نواز کی آمدن 35لاکھ روپے ہے ۔ہمیں یہ بتا دیں یہ کوئی راکٹ سائنس تو نہیں۔

شاہد حامد نے کہا کہ 2012 میں مریم نواز کے اثاثے بیس کروڑ روپے سے زائد تھے۔ تمام گوشوارے جمع کرادیئے تاکہ کوئی چیز نہ رہ جائے ہماری تیاری الزامات کے دفاع کی حد تک ہے۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ اگر الزامات کے جوابات دینا ہوتے تو ایک ماہ میں کیس ختم ہوجاتا۔ عدالت نے اپنی تسلی کرنی ہے۔ شاہد حامد نے کہا کہ تحفے دینے سے بچے زیر کفالت نہیں ہوئے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کا مطلب ہے تحفہ لینے سے کوئی زیر کفالت نہیں ہوجاتا۔ شاہد حامد نے کہا کہ ریٹرن فائل کرنے والا زیر کفالت کیسے ہوسکتا ہے۔ مریم نواز سے متعلق 7فروری 2006 کی دستاویز جعلی ہے۔ منروا کمپنی کے سربراہ سے ملاقات حسین نواز نے 2006ء میں کی حسین نواز نے ڈائریکٹرز کی تعیناتی کی مریم نواز کا کوئی تعلق نہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کچھ دستاویزات عدالتی کارروائی کے بعد لائی گئیں۔

جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ کیا کسی یاداشت پر عدالت فیصلہ دے سکتی ہی لگتا ہے مریم اور حسین اپنے موقف کارروائی کے مطابق ڈھال رہے ہیں۔ شاہد حامد نے کہا کہ سیاسی اختلافات پر ماضی میں حکومتیں ہٹائی گئیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا وہ دور گیا اب کیس عدالت میں زیر سماعت ہے۔ ہم عدالتی معاون مقرر کرنے کے مرحلے سے آگے نکل آئے۔ ہماری معاونت بہترین وکلا نے کی۔ شاہد حامد نے کہا کہ اسحاق ڈار کی طرف سے دلائل جمعہ کو دونگا۔ بعد ازاں سماعت کل جمعہ تک ملتوی کردی گئی۔