تمام صوبوں میں بولی جانے والی قومی زبانوں کو آئینی تحفظ ملے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ

ہم نے سائوتھ افریقہ اور دیگر ممالک کا حوالہ بھی دیا لیکن نامعلوم وجوہات کے بنا پر اس میں کامیابی نہیں ملی ، نصاب مرتب کرنے کا کام صوبوں کے حوالے کیا،سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان کا تقریب سے خطاب

منگل 21 فروری 2017 21:18

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 فروری2017ء) نیشنل پارٹی کے رہنماء سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ ہم نے اٹھارویں ترمیم کی تدوین کے وقت اس بات کی بھر پور کو شش کی کہ تمام صوبوں میں بولی جانے والی قومی زبانوں کو آئینی تحفظ ملے اس سلسلے میں ہم نے سائوتھ افریقہ اور دیگر ممالک جہاں کثیر الثانی آبادی ہے ان کا حوالہ بھی دیا لیکن نامعلوم وجوہات کے بنا پر ہمیں اس میں کامیابی نہیں ملی لیکن ہمیں اس میں کامیابی ملی ہے کہ ہم نے نصاب مرتب کرنے کا کام صوبوں کے حوالے کیا ،انہوںنے کہا کہ جب ہم گزشتہ انتخابات میں کامیاب ہو ئے اور بعد میں ہم نے صوبائی حکومت کی تشکیل کی تو ہمیں احساس تھا اور ہم نے جلدی جلدی صوبے کی زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنانے کیلئے قانون سازی کی اب یہ زبان کی ماہرین اور دانشوروں کا کام ہے کہ وہ صوبے کے زبانوں کیلئے اپنے خدمات پیش کریں اور اگر مسائل ہے تو ہم سیا ستدانوں کو اگاہ کریں ،یہ بات انہوںنے منگل کے روزبلوچی لبزانکی دیوان کے زیر اہتمام مادری زبانوں کے عالمی دن کے مو قع پر کوئٹہ پریس کلب میں منعقدہ تقریب سے بحیثیت مہمان خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ تمام زبانیں ہماری اپنی ہے وہ محبت اور یگانگت کا سبب ہے جب ہم نے اپنے زبانوں میں اپنا مطمع نظر بیان کرتے ہیں یا اپنی زبانوں میں کچھ تحریر کرتے ہیں تو ہمیں تذکیر و تانیت کے جھیلوں سے پڑنے کی ضرورت نہیں ہو تی اور ہمیں الفاظ کا تسلسل اور بہائو ملتا ہے لیکن ہم نے بد قسمتی سے زبانوں کی اہمیت اور افادیت سے مسلسل انکار کیا ہے انہوںنے کہا کہ میں نے اپنے دور اقتدار میں گوادر سے کراچی تک کوئٹہ اور نوشکی سمیت جس علا قے کے ادبی اداروں نے ہم سے رابطہ کیا ہم نے ان کی گرانٹ جاری کی یا اس سلسلے میں اضافہ کیا ہم نے بلوچستان یونیور سٹی اور کیچ یونیورسٹی کو کئی مراعات میں گرانٹ دی ڈاکٹر عبدلمالک بلوچ نے کہا کہ زبانوں کی مقبولیت کے سلسلے میں پرپیگنڈا بے بنیاد ہے جب تک ایک آدمی بھی زندہ ہوگا اور وہ جس زبان میں بھولیں گا وہ زندہ رہیں گا انہوںنے کہا کہ ریا ست اور حکومت کی سرپرستی زبانوں کی فروغ کیلئے ضروری ہے تقریب کے صدر اور بلوچی کے نامور ناول نگار دانشور منیر بادینی نے خطاب کرت ہوئے کہا کہ ہر شخص سچائی کی تلا ش میں ہے یہ کائنات عام آدمی فلا سفر اور سائنس دان کے یکساں معمہ ہے عام آدمی اور فلاسفر کے سوچھنے کے انداز ایک ہے ہر آدمی اپنے آپ میں اظہار چاہتے ہیں زبان دماغ کا آئنہ ہے انہوںنے کہا کہ زناب اظہار کا موثر ذریعہ ہے اور زبان کی ترقی سماج کی ترقی کا اہم عنصر ثابت ہو سکتا ہے دنیا کا بڑ ادب مادری زبان میں تخلیق ہوا ہے اس لیئے حکومتی سطح پر اس کی سرپرستی لا زم ہے تقریب سے اکادمی ادیبات بلوچستان کے ڈئریکٹر افضل مراد ،قیصر جمالی ،یارجان بادینی ،نور خان محمد حسنی ،شیر احمد حسنی ،عرفان احمد بیگ،موسیٰ جان خلجی ،اور دیگر نے بھی خطا ب کیا اور مادری زبانوں کی عالمی دن کی مناسبت سے اپنے خیالات کا اظہار کیا تقریب میں میر گل خان نصیر کی صاحبزادی گل بانو کی انتقال پر تعزیت کا اظہا ر کیا گیا اس کے علاوہ ڈی جی پی آر کے اشتہارات کے بجٹ کا 25فیصدبلوچی ،براہوی،پشتواور ہزارگی زبان کے اخبارات و رسائل کے لئے مختص کرنے بلوچی چینل وش کو نظر انداز کرنے ،یونیسکوکی جانب سے بلوچی ،براہوی پشتو اور ہزارگی زبانوں کی ترقی کیلئے اقدامات کرنے ،مہر گڑھ ،میری قلات ،میر چاکر اور دیگر قدیم آثار کو محفوظ کرنے کیلئے اقدامات کرنے اور ان زبانوںکو قومی زبان کا درجہ دینے اور مردم شماری کی فارم پر زبان کی بجائے قوم کا نام لکھنے سے متعلق قراردادیں منظور کی گئی ۔