سندھ اسمبلی ، سانحہ سیہون سے متعلق نند کمار کی نجی قرارداد مسترد ،اپوزیشن ارکان کا علامتی واک آؤٹ

مسلم لیگ (فنکشنل) کے شہریار خان مہر اور پاکستان تحریک انصاف کی خاتون رکن ڈاکٹر سیما ضیاء نے اپوزیشن کے احتجاج کا ساتھ نہیں دیا سہون کے واقعہ دہشت گردوں کی کون مذمت نہیں کرے گا لیکن اس پورے معاملے پر ایوان میں تفصیلی بحث ہو چکی ہے ،نثار احمد کھوڑو کا خطاب

منگل 7 مارچ 2017 18:36

سندھ اسمبلی ، سانحہ سیہون سے متعلق نند کمار کی نجی قرارداد مسترد ،اپوزیشن ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 مارچ2017ء) سندھ اسمبلی میں منگل کو پرائیویٹ ممبرز ڈے کے موقع پر سانحہ سہون سے متعلق مسلم لیگ (فنکشنل) کے نند کمار کی ایک نجی قرار داد ایوان نے کثرت رائے سے مسترد کر دی ، جس پر اپوزیشن کے ارکان نے ایوان سے علامتی واک آؤٹ کیا لیکن مسلم لیگ (فنکشنل) کے شہریار خان مہر اور پاکستان تحریک انصاف کی خاتون رکن ڈاکٹر سیما ضیاء نے اپوزیشن کے اس احتجاج کا ساتھ نہیں دیا اور وہ بدستور ایوان میں بیٹھے رہے ۔

جس پر اپوزیشن کی صفوں میں تقسیم واضح طور پر نظر آئی ۔ ایوان کی کارروائی کے دوران ایم کیو ایم کے کامران اختر کی ایک قرار داد بھی مسترد کر دی گئی جبکہ پی ٹی آئی کے دو ارکان خرم شیر زمان اور ڈاکٹر سیما ضیاء کی دو الگ الگ نجی قرار دادیں ایوان نے متفقہ طور پر منظور کر لیں ۔

(جاری ہے)

سانحہ سہون سے متعلق مسلم لیگ (فنکشنل) کے نندکمار کی جانب سے پیش کردہ قرار داد پر خطاب کرتے ہوئے سندھ کے سینئر وزیر پارلیمانی امور نثار احمد کھوڑو نے کہا کہ ہم سب کو پتہ ہے کہ سہون کا اندوہناک واقعہ انتہائی دلخراش اور افسوس ناک ہے ۔

نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد اور اس کے نتائج کے حوالے سے بہت سے دوستوں کو تحفظات بھی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سہون کے واقعہ دہشت گردوں کی کون مذمت نہیں کرے گا لیکن اس پورے معاملے پر ایوان میں تفصیلی بحث ہو چکی ہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ اپنا پالیسی بیان بھی دے چکے ہیں ، جس کے بعد ایوان میں ہنگامہ آرائی بھی ہوئی ۔ انہوں نے نندکمار کی قرار داد فنی بنیادوں پر مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کے پاس کل بہت اچھا موقع تھا کہ وہ سانحہ سہون پر آؤٹ آف ٹرن ایوان میں کوئی قرار داد لے آتی لیکن اس نے یہ موقع ضائع کر دیا اور آج ایک ایسے ایشو کو دوبارہ ایوان میں زیر بحث لانے کی کوشش کر رہی ہے ، جس کی قواعد اجازت نہیں دیتے ۔

جس پر اسپیکر نے نندکمار کی نجی قرار داد پر ایوان میں رائے شماری کرائی ، جسے کثرت رائے سے مسترد کر دیا گیا ۔ اس موقع پر اپوزیشن کے ارکان نے احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے علامتی واک آؤٹ کیا لیکن حیرت انگیز طور پر مسلم لیگ (فنکشنل) کے رکن صوبائی اسمبلی شہریار خان مہر اور پی ٹی آئی کی خاتون رکن ڈاکٹر سیما ضیاء نے اپنی پارٹیوں کے اس احتجاج کا ساتھ نہیں دیا اور یہ دونوں ارکان بدستور ایوان میں موجود بیٹھے رہے ۔

ایوان کی کارروائی کے دوران مسلم لیگ (فنکشنل ) کے شہریار خان مہر نے اپنی ایک نجی قرار داد پیش کی ، جس کا تعلق صوبے میں سرکاری اسکولوں کی خراب صورت حال اور ان کی فوری مرمت اور دیکھ بھال سے متعلق تھا ۔ تاہم وزیر تعلیم جام مہتاب حسین ڈاہر کی یقین دہانی پر انہوں نے اپنی تحریک پر زور نہیں دیا اور تحریک واپس لے لی ۔ شہریار مہر کی جانب سے پیش کردہ قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر تعلیم سندھ نے بتایا کہ ان کی ذاتی کوششوں کے سبب ایک مختصر عرصے میں سندھ کے جو 4 ہزار بند اسکول تھے ، ان میں سے 700 اسکولوں کو دوبارہ کھول دیا گیا ہے ۔

جہاں تدریسی عمل جاری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ان کی یہ کوشش ہے کہ ہر ضلع میں بلاامتیاز تمام منتخب ارکان اسمبلی ، بلدیاتی نمائندوں اور سرکاری افسران کے ساتھ مل کر تعلیمی اداروں کی درستگی اور معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں ۔ انہوں نے بتایا کہ سند ھ میں ہر تعلقہ اور ضلع کی سطح پر مانیٹرنگ ٹیمیں بنائی جا رہی ہیں ، جس میں ڈپٹی کمشنر ، مقامی حکومتوں کے نمائندے اور حلقے کے ارکان اسمبلی شامل ہیں ۔

وہ منتخب نمائندوں کو ذاتی طور پر مدعو کرکے ان سے مشاورت کر رہے ہیں ۔ اس سلسلے میں انہوں نے سندھ کے مختلف اضلاع کا ، جن میں سکھر ، جیکب آباد ، سانگھڑ ، میرپورخاص ، شہید بے نظیر آباد اور دوسرے اضلاع بھی شامل ہیں ۔ حال ہی میں ان علاقوں کے دورے کیے ہیں تاکہ بند اسکولوں کو کھولا جا سکے ۔ خستہ حال اسکولوں کی حالت بہتر کی جا سکے ۔ وزیر تعلیم سندھ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ تعلیمی اداروں کی بہتری اور دیکھ بھال کے حوالے سے سول سوسائٹی کو جو کردار ادا کرنا چاہئے ، وہ نہیں کر رہی ۔

سندھ میں کئی ایسے اسکول بھی ہیں ، جہاں لوگ جان بوجھ کر کچرا پھینکتے ہیں اور ایسی ہی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ کچھ لوگوں نے اسکولوں کے دروازے اور لوہے کی گرل بھی چوری کر لیں ۔ جس کی شکایت پولیس کے پاس کی گئی اور اب ایسے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ محرک شہریار مہر کے حلقے میں تین ڈگری کالج قائم کیے گئے ہیں اور اب وہاں منیجمنٹ کورسز کے ادارے بھی قائم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے ۔

وزیر تعلیم سندھ کی تقریر کے دوران ایم کیو ایم کے بعض ارکان نے مداخلت کرنے کی کوشش کی تو وزیر تعلیم جام مہتاب حسین ڈاہر نے ایم کیو ایم کے ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے دورے حکومت میں تو اساتذہ کی بھرتی کے فارم بھی فروخت کیے گئے اور دو وزیروں کے درمیان پیسوں کی تقسیم پر جھگڑا بھی ہوا تھا ۔ آپ میری مزید زبان نہ کھلوائیں ۔ دوسروں پر تنقید کریں گے تو جواب بھی آئے گا ۔

وزیر تعلیم کی یقین دہانی پر شہریار مہر نے اپنی قرار داد واپس لے لی ۔ اسپیکر آغا سراج درانی نے اسے ایک خوش آئند اقدام قرار دیا ۔ سندھ اسمبلی کے اجلاس کے دوران ایم کیو ایم کے رکن سندھ اسمبلی کامران اختر نے قومی زبان اردو کو سندھ میں سرکاری زبان کے طو رپر نافذ کرنے اور عمل درآمد سے متعلق ایک نجی قرار داد ایوان میں پیش کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے اردو کو قومی زبان قرار دیا تھا اور حال ہی میں سپریم کورٹ نے بھی ہر سطح پر اردو زبان کو فروغ دینے اور مروج کرنے کی اجازت دی ہے ۔

وزیر پارلیمانی امور نثار احمد کھوڑو نے قرار داد کی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ یہ ہم سب کو پتہ ہے کہ اردو زبان کی قومی حیثیت ہے ۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حکومت سندھ اردو زبان کے حوالے سے احکامات صادر کرے یہ کوئی تک کی بات نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سندھ اسمبلی میں اردو اور انگریزی کے ساتھ ساتھ سندھی زبان بھی استعمال کی جاتی ہے ۔ کیا اس قرار داد کا مقصد یہ ہے کہ آئندہ سندھی زبان استعمال نہ کی جائے ۔

اسپیکر آغا سراج درانی نے محرک سے دریافت کیا کہ آیا وہ اپنی قرار داد واپس لینا چاہتے ہیں ، جس پر کامران اختر نے کہا کہ میں واپس نہیں لوں گا ۔ بعد ازاں ایوان نے کثرت رائے سے قرار داد مسترد کر دی ۔ پاکستان تحریک انصاف کے رکن خرم شیر زمان کی ایک نجی قرار داد ، جس کا تعلق کے الیکٹرک کے زیر استعمال بجلی کے میٹروں کی تنصیب اور صارفین کو کی جانے والی اوور بلنگ سے متعلق تھی ۔

ایوان نے متفقہ طور پر منظور کر لی ۔ محرک کا کہنا تھا کہ کے الیکٹرک مختلف ہیلے بہانوں سے کراچی کے صارفین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے ۔ نیپرا نے شام 6 بجے سے رات 10 بجے تک پیک اوورز میں فی یونٹ بجلی کے نرخ 18 روپے مقرر کیے ہوئے ہیں جبکہ باقی اوقات کے لیے ساڑھے 12 روپے فی یونٹ کی شرح مقرر ہے لیکن کے الیکٹرک پورے 24 گھنٹے 18 روپے کی شرح سے چارج کرتی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ یہ عوامی مفاد کا مسئلہ ہے کیونکہ کے الیکٹرک نے کراچی میں لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔ ادارے کے دفاتر کے باہر پریشان حال لوگ دن بھر قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں اور کراچی میں اصل شرح سے 40 فیصد زائد شرح سے بجلی کے بل وصول کیے جا رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک کراچی کے شہریوں سے اربوں روپے لوٹ چکی ہے اور اب سنا ہے کہ کسی چائنز کمپنی کو یہ ادارہ فروخت کیا جا رہا ہے لیکن ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں ہے ۔

اور حد تو یہ ہے کہ سندھ اسمبلی اور حکومت سندھ کے دوسرے سرکاری محکموں سے بھی اضافی شرح سے بجلی کے بل وصول کیے جا رہے ہیں ۔ خرم شیر زمان نے تجویز پیش کی کہ سندھ اسمبلی کی ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے ، جو کے الیکٹرک کی انتظامیہ کو ایوان میں طلب کرکے ان سے باز پرس کرے ۔ پیپلز پارٹی کے میر تالپور نے قرار داد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ بجلی کا مسئلہ کراچی کا نہیں بلکہ پورے سندھ کا ہے ۔

اس حوالے سے بدین میں بھی بہت زیادہ ظلم و زیادتی ہو رہی ہے ۔ اس بارے میں سندھ اسمبلی کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے ، جو پورے صوبے میں بجلی سے متعلق شکایات کا جائزہ لے ۔ صوبائی وزیر شمیم ممتاز نے کہاکہ بجلی سے متعلق شکایات کراچی کا ایک بہت پرانا مسئلہ ہے ۔ جس وقت کے الیکٹرک کو فروخت کیا جا رہا ہے تھا ، پیپلز پارٹی نے اس کی سخت مخالفت کی تھی ۔

انہوں نے کہا کہ شہر میں گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کے باوجود بلوں میں کوئی کمی نہیں ہو رہی ۔ شمیم ممتاز کا کہنا تھا کہ ایوان پارلیمانی کمیٹی ضرور بنائے ۔ ساتھ ہی اس بات کی بھی اشد ضرورت ہے کہ حکومت سندھ کے الیکٹرک کو دوبارہ اپنی تحریل میں لے لے ۔ ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر سید سردار احمد نے بھی اس تجویز کی حمایت کی اور کہاکہ لازمی سروسز والے ادارے کبھی بھی نجی شعبوں کے ہاتھوں میں نہیں دیئے جانے چاہئیں ۔

پی ٹی آئی کے ثمر علی خان نے کہا کہ قرار داد اہمیت کی حامل ہے ، جس کی حمایت پورا ایوان کر رہا ہے ۔ مسلم لیگ (فنکشنل) کی خاتون رکن نصرت بانو سحر عباسی نے کہا کہ کے الیکٹرک کے عتاب سے کراچی کا کوئی شہری محفوظ نہیں ہے ۔ گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ اور اوور بلنگ کے باوجود ان کے دفاتر میں صارفنین کی شکایت پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اب یہ اطلاعات ہیں کہ کے الیکٹرک بھی کسی چائنز کمپنی کو فروخت کی جا رہی ہے ۔

ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اب ہمیں بھی چائنز سیکھنی پڑے گی اور آئندہ پینے کا پانی بھی کوئی چائنز کمپنی فراہم کرے گی ۔ ایم کیو ایم کے کمال شاہ نے کہا کہ کے الیکٹرک کراچی کے شہریوں کا خون نچوڑنے میں مصرورف ہے اور اس ادارے کے افسران اس شہر میں ہونے والی اوور بلنگ کی رقم سے لاکھوں روپے کی تنخواہیں وصول کر رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں بجلی کی تقسیم کے نظام کے لیے جہاں تانبے کے تار لگے ہوئے ، انہیں ننکال کر اب سلور کے تار بچھائے جا رہے ہیں ۔

پیپلز پارٹی کے رکن جاوید ناگوری نے کہاکہ کے الیکٹرک کی ستم ظریفی سے سب سے زیادہ لیاری متاثر ہے ۔ جہاں بجلی کئی کئی روز تک موجود نہیں ہوتی ۔ انہوں نے کہا کہ اب تو اس ادارے کی کارکردگی کے بارے میں صدر مملکت بھی بول پڑے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ نفع بخش ادارہ ہے لیکن عوام کو کوئی سہوت دینے کو تیار نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ عدالتیں ہر معاملے پر تو ازخود نوٹس لے لیتی ہیں لیکن افسوس کے الیکٹرک کی زیادتیوں پر آج تک کوئی نوٹس نہیں لیا گیا ۔

بعد ازاں ایوان نے قرار داد متفقہ طور پر منظور کر لی ۔ سندھ اسمبلی کے اجلاس میں ایوان نے پی ٹی آئی کی خاتون رکن ڈاکٹر سیما ضیاء کی ایک نجی قرار داد ترمیم کے ساتھ متفقہ طور پر منظور کر لی ۔ جس میں سندھ اسمبلی کی جانب سے وفاقی حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ نظر ثانی شدہ ’’ ایس۔ 3 ‘‘ منصوبے کو ترجیحی بنیاد پر مکمل کرنے میں حکومت سندھ کی مدد کریں تاکہ اس منصوبے کے تحت انٹریٹڈ گھریلو میونسپل بلدیاتی اور صنعتوں سے نکلنے والا سیوریج کا پانی ٹریٹمنٹ کے بغیر سمندر میں نہ ڈالا جا سکے ۔

سیما ضیاء نے اپنی قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ سیوریج کا پانی بغیر ٹریٹمنٹ کے سمندر میں ڈالا جا رہا ہے ، جس سے خطرناک بیماریاں پھیل رہی ہیں اور اس صورت حال میں سمندری مخلوق ماحولیات اور بحریہ کی تنصیبات بھی متاثر ہو رہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے ساحل پر روزانہ خصوصاً تعطیلات کے دنوں میں لاکھوں شہری سیرو تفریح کے لیے ساحل پر جاتے ہیں لیکن سمندر میں سیوریج کے پانی کے باعث وہاں پر تعفن زدہ ماحول ہے ۔

معصوم بچے سمندر کے کنارے جس ریت میں کھیلتے ہیں یا ریت سے گھروندے بناتے ہیں ، اس کی رنگت سیاہ ہو چکی ہے اور اس ریت میں پولیو ، ہیپاٹائٹس اور ہیضے جیسی بیماریوں کے جراثیم بھی موجود ہیں ۔ حکومت ان بیماریوں کے خاتمے کے لیے خواہ کتنی بھی مہم چلا لے لیکن اس وقت تک کسی بہتری کا امکان نہیں ، جب تک سمندر میں غلیظ پانی ڈالنے کے سلسلے کو نہیں روکا جاتا ۔

اس موقع پر وزیر بلدیات جام خان شورو نے کہا کہ حکومت سندھ اس معاملے کی سنگینی سے پوری طرح آگاہ ہے ۔ کراچی میں 450 ملین گیلن سیوریج کا پانی یومیہ سمندر میں جاتا ہے ۔ سیوریج کے پانی کی ٹریمنٹ کے لیے 2007 ء میں ٹریٹمنٹ کا ایک منصوبہ شروع کیا گیا تھا ، جس پر لاگت کا تخمینہ 7 ارب 90 کروڑ روپے لگایا گیا تھا لیکن یہ منصوبہ وقت پر مکمل نہ ہو سکا ، جس کی وجہ سے منصوبے کی لاگت بڑھ گئی اور اب اس منصوبے کی تکمیل کے لیے تقریباً 32 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہماری یہ کوشش ہے کہ ہم نے جو نظرثانی شدہ منصوبہ ایکنک کے پاس منظوری کے لیے بھیجا ہے ، وفاقی حکومت فوری طور پر اس کی منظوری دے تاکہ ٹریٹمنٹ پلانٹ کا منصوبہ جلد مکمل ہو سکے ۔ انہوں نے کہاکہ وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان یہ طے پایا تھا کہ 50 فیصد رقم سندھ حکومت دے گی اور 50 فیصد اخراجات وفاق برداشت کرے گا لیکن وفاق کی جانب سے پیسے نہیں دیئے جا رہے ۔ جب تک وفاقی حکومت اپنے حصے کی رقم ادا نہیں کرے گی ، یہ منصوبہ مکمل نہیں ہو سکے گا ۔ ایوان میں پیپلز پارٹی اور اپوزیشن کے کئی ارکان نے ڈاکٹر سیما ضیاء کی قرار داد کی حمایت کی اور ایوان نے اسے ترمیم کے ساتھ متفقہ طور پر منظور کر لیا ۔