حسین حقانی کے انکشافات ایبٹ آباد کمیشن کیلئے حیران کن نہیں،جسٹس(ر)جاوید اقبال

کمیشن 2 حسین حقانی کے سہولت کار کے طور پراقدامات سے اچھی طرح آگاہ تھا پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 1956 کی متعلقہ شقوں کے تحت حلف نہ اٹھایا ہوتا توحقیقت کا انکشاف کر دیتا، چیئرمین ایبٹ آباد کمیشن کی گفتگو

منگل 14 مارچ 2017 15:15

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 14 مارچ2017ء) چیئرمین ایبٹ آباد کمیشن جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کہا ہے کہ حسین حقانی نے اب جو انکشاف کیا ہے وہ کمیشن کے لئے حیران کن نہیں ہے، جس میں تفصیل سے پاکستان کے سابق سفیر کی جانب سے ادا کیے گئے کردار پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق تفصیلات کا انکشاف کیے بغیر چیئرمین ایبٹ آباد کمیشن نے تایا کہ کمیشن اچھی طرح آگاہ تھا کہ حقانی نے کیا کردار ادا کیا ہے اور 2 مئی 2011 کے واقعے میں سہولت کار کے طور پر ان کے کیا اقدامات تھے۔

جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کہا کہ اگر انہوں نے پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 1956 کی متعلقہ شقوں کے تحت حلف نہ اٹھایا ہوتا تو وہ حقیقت کا انکشاف کر دیتے۔ اپنے تازہ ترین مضمون میں جو حال ہی میں واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوا ہے، حسین حقانی نے نہ صرف یہ اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے پاکستان میں اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے کے لئے سی آئی کے اہلکاروں کی بڑی تعداد میں موجودگی کے لئے سہولت کاری کا کام کیا تھا بلکہ انہوں نے پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت کو بھی اس میں پھنسا دیا ہے۔

(جاری ہے)

حقانی نے کہا ہے کہ انہوں نے پاکستان منتخب سویلین قائدین، اس وقت کے صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی منظوری سے اقدامات کیے تھے۔حقانی نے اپنے مضمون میں تحریر کیا ہے کہ انہوں نے امریکی انٹیلی جنس اہلکاروں کی پاکستان میں آمد کے لئے اعلی پاکستانی سویلین قیادت سے رابطہ اور ان کی منظوری حاصل کی تھی۔ 2 مئی کے ایبٹ آباد آپریشن کے حوالے سے انہوں نے اس بات کی تردید نہیں کی کہ وہ یا ان کے سویلین رہنما لاعلم نہیں تھے بلکہ معنی خیز انداز میں کہا کہ امریکا نے آپریشن سے متعلق ہمیں سرکاری طور پر آگاہ نہیں کیا تھا۔

حقانی نے زور دے کر کہا کہ پاکستان کو سرکاری طور پر آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔ حقانی نے لکھا ہے کہ اوباما کی مہم کے دوران میں نے جو دوست بنائے تھے، تین برس کے بعد انہوں نے بطور قومی سلامتی کونسل کے حکام کے طور پر مجھ سے پاکستان میں امریکی اسپیشل آپریشنز اور انٹیلی جنس کے حکام کی تعیناتی کے لئے مدد طلب کی۔میں وہ درخواست براہ راست پاکستان کی سویلین قیادت کے پاس لے گیا جنہوں نے اس کی منظوری دیدی۔

اگرچہ امریکا نے سرکاری طور پر ہمیں آپریشن سے متعلق آگاہ نہیں کیالیکن جب صدر اوباما نے پاکستان کو آگاہ کیے بغیر نیوی سیلز ٹیم 6 کو بھیجنے کا فیصلہ کیا تو مقامی طور پر تعینات امریکی بہت کام آئے۔ اب جو انہوں نے اعتراف کیا ہے اس سے سویلین لیڈرز کا تعلق جوڑتے ہوئے حقانی نے کہا ہے کہ وہ سویلین لیڈرز، آصف علی زرداری اور یوسف رضاگیلانی، جنہوں نے مجھے سفیر تعینات کیا تھا، اندرون ملک اور بیرون ملک پرویز مشرف کی پالیسیوں کو ختم کرنے کے لئے امریکی حمایت کے طلب گار تھے۔

وہ کہتے تھے کہ وہ طالبان کے لئے پاکستان کی حمایت ختم کرنا چاہتے ہیں، بھارت اور افغانستان سے تعلقات بہتر بنانا چاہتے ہیں اور ملک کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں پاکستان کی ملٹری انٹیلی جنس کے کردار کو محدود کرنا چاہتے ہیں۔اس کے جواب میں وہ پاکستان کی بیمار معیشت کو بہتر بنانے کے لئے امریکا کی فراخدلانہ امداد کے خواہش مند تھے۔ حقانی نے مزید کہا ہے کہ میرے خلاف سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کی شکایات میں یہ الزام بھی شامل تھا کہ میں نے پاک فوج کے علم میں لائے بغیر اسامہ بن لادن کو ڈھونڈنے میں مدد دینے کے لئے سی آئی اے کے کارندوں کی بڑی تعداد کی موجودگی کے لئے سہولت کار کا کام کیا تھا، حالانکہ میں نے پاکستان کی منتخب سویلین قیادت کی منظوری سے یہ کام کیا تھا۔

پیپلز پارٹی کی مرکزی رہنما شیری رحمان نے حقانی کے اعترافات کو مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ سابق سفیر نے ہوسکتا ہے کہ یہ بات کسی پوشیدہ دباو کی وجہ سے کہی ہو۔ تاہم آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کی جانب سے کسی قسم کی تردید یا وضاحت جاری نہیں ہوئی ہے۔ میمو کمیشن اپنی 121 صفحات پر مبنی رپورٹ میں پہلے ہی یہ نتیجہ اخذ کر چکا ہے کہ حسین حقانی میمو کے معمار اور اس کا آغاز کرنے کے ذمہ دار تھے اور ان کا یہ عمل پاکستان سے بے وفائی اور آئین پاکستان کی خلاف ورزی تھا۔ کمیشن کا اکتشاف یہ تھا کہ حسین حقانی کا کردار ایسا ہے کہ ان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا اور دہرے معیارات کے حامل ہیں۔