علماء پارلیمنٹ میں اسلام سے متصادم قانون سازی روکنے کیلئے دین کی چوکیداری کا کام کررہے ہیں ، اسلام کی سربلندی اور اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے بھر پور جدوجہد ہم سب پر لازم ہے ،اس کے لیے ہر طریقہ اختیار کیاجائے ،پاکستان میں پارلیمانی نظام ہے ، پارلیمان تک پہنچنے کے لیے انتخابات میں جیت ضرور ی ہے ،سب لوگ علماء اور دین کے محافظوں کومنتخب کرواکر ایوانوں میں بھجوائیں، امت مسلمہ اسلام او ر دینی مدارس کے خلاف غیروں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے متحد جائیں ،کوئی وزیر کسی مدرسے میں چلا جائے اور امداد دیدے تو اسکو بڑا مذہبی رہنما قرار دے دیا جاتا ہے ، مدارس پر تنقید ہوتی ہے تو ہمیشہ اس کاجواب جمعیت بھر پور انداز میں دیتی ہے ، انسانی حقوق کاتحفظ امن کا ضامن ہوتا ہے پسماندہ طبقات کو پسماندگی سے نکالنا قرآن کی تعلیمات ہیں ، ایک دوسرے کے حقوق پر حملے سے فسادات پیدا ہوتے ہیں

جمعیت علماء اسلام( ف )کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا دینی مدارس علماء کنونشن سے خصوصی خطاب

بدھ 15 مارچ 2017 23:16

نوشہرہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 15 مارچ2017ء) جمعیت علماء اسلام( ف )کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ علماء پارلیمنٹ میں دین کی چوکیداری کا کام کررہے ہیں تاکہ اسلام سے متصادم کوئی قانون سازی نہ ہوسکے،ہم سب پر لازم ہے کہ ہم اسلام کی سربلندی اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے بھر پور جدوجہد کریں اور اس کے لیے ہر طریقہ اختیار کریں ،پاکستان میں پارلیمانی نظام ہے اور پارلیمان تک پہنچنے کے لیے انتخابات میں جیت ضرور ی ہے لہذا سب کافرض بنتا ہے کہ وہ اپنے علماء اور دینی کے محافظوں کومنتخب کرواکر ایوانوں میں بھجوائیں، امت مسلمہ اسلام او ر دینی مدارس کے خلاف غیروں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے متحد جائیں ،کوئی وزیر کسی مدرسے میں چلا جائے اور امداد دیدے تو اسکو بڑا مذہبی رہنما قرار دے دیا جاتا ہے ، مدارس پر تنقید ہوتی ہے تو ہمیشہ اس کاجواب جمعیت بھر پور انداز میں دیتی ہے اورمدراس کی تنظیم وفاق المدارس کے حقوق کی ضامن بھی جے یوآئی ہے ، اسلام نے آزادی کو انسان کا پیدا ئشی حق قرار دیا ہے ، انسانی حقوق کاتحفظ امن کا ضامن ہوتا ہے پسماندہ طبقات کو پسماندگی سے نکالنا قرآن کی تعلیمات ہیں۔

(جاری ہے)

آج دینی اور مذہبی طبقہ آزمائش کے دور سے گزر رہا ہے، ایک دوسرے کے حقوق پر حملے سے فسادات پیدا ہوتے ہیں۔ خوش قسمتی ہے کہ ہماری زندگی میں جمعیت علماء اسلام نے سو سال پورے کیے۔ وہ جمعیت علماء اسلام ف کی صد سالہ تقریبات کے سلسلے میں دینی مدارس علماء کنونشن سے بطور مہمان خصوصی خطاب کررہے تھے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ دینی مدارس اسلا م کے قلعے ہیں امریکہ یورپ اسرائیل ہندوستان یہود ہنود اور نصاریٰ اسلام کے خلاف برسر پیکار ہیں۔

اور دینی مدارس اور اسلام کو بدنام کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ دینی مدارس میں 29 لاکھ طلباء دینی اور عصری علوم حاصل کررہے ہیں۔ دینی مدارس اسلامی تشخص اور اسلامی اقدار کی ضامن ہیں۔ علمائ کا کردار بہت اہم ہے۔ انھوں نے کہا کہ جواپنے اکا بر واسلاف سے اپنی نسبت کو جوڑ لیتے ہیں اور وہی ان کے لیے ان کا ایک امتیاز بن جاتاہے وقت کا تقاضہ ہے کہ پور ی امت مسلمہ اسلام او ر دینی مدارس کے خلاف غیروں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے متحد جائیں۔

مسلکی اور فقیہی مسائل کو پس پشت ڈال کرقرآن وحدیث کی روشنی میں اسلام کی صحیح تصویر پیش کریں۔ آپس میں چھوٹے چھوٹے فروعی مسائل کونظر انداز کریں۔ انھوں نے کہا کہ ہر جگہ اسلام کی خدمت ہورہی ہے بر صغیر کبھی ایک وطن تھا لیکن آج جغر افیا ئی لحا ظ سے ہماری وابستگی پاکستان کے ساتھ ہے۔ اور کسی کی بنگلادیش کے ساتھ ہے۔1919میں بر صغیر میں دیو بند کا آغا ز ہوا اور اج اس کے سو سال پورے ہوگئے ہے انھوںنے کہا کہ دیو بند ایک فکر اور نظریہ کا نام ہے اور برصغیر میں مدرسہ دیو بند نے اسلام کی حقیقی خدمت کے لیے کلیدی کردار ادا کیا۔

جمعیت کی صد سالہ تقریبات بنگلادیش ، ہندوستان اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی ہونی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ہمار ا ایک دینی طبقہ آز مائش کے ایک دور سے گزرہا ہے۔ہم سب مسلمان جس کا تعلق کسی مسلک کسی فریقے سے ہو ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ انسانو ں نے میں کبھی بھی سو فیصد اتفاق پیدا نہیں ہوتا مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ آج کے اس دور میں جمیت علمائ اسلام ف ہماری ایک قو ت ہے مسجد مدرسہ ایک روحانی تر بیت گاہ ہیں۔

انھوںنے کہا کہ ہمارے اکابر تو خا نقاہ میں رہ کر اپنے دلوں میں ضربیں مارتے تھے ہمارے دینی مدرسے ایک تر بیت گاہ ہیں۔ اور ہم سب پر لازم ہے کہ ہم اسلام کی سربلندی اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے بھر پور جدوجہد کریں۔ اور اس کے لیے ہر طریقہ اختیار کریں۔ پاکستان میں پارلیمانی نظام ہے اور پارلیمان تک پہنچنے کے لیے انتخابات میں جیت ضرور ی ہے لہذا سب کافرض بنتا ہے کہ وہ اپنے علمائ اور دینی کے محافظوں کومنتخب کرواکر ایوانوں میں بھیجوائیں۔

تاکہ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے راہ ہموار ہو اور اس ملک میں حقیقی تبدیلی ائے۔ انھوں نے کہا کہ جے یوائی کے سربراہ مولانا مفتی محمود اور ان کے ساتھیوں نے ختم نبوت اور قادیانیوں کو کافر قرار دینے کے لیے جوعظیم جد وجہد کی تو بعض لوگوں نے کہا کہ اس کاسارا کریڈٹ تو ذوالفقار علی بھٹو کو ملے گا۔ تو مولانا مفتی محمود نے کہا کہ ہم نے تو اس وقت کے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا تھا کہ قادیانیوں کو کافر قرار دے۔

اس کا تو یہ مطلب ہو اکہ ہم نے پاکستان کی آزادی کے لیے جدو جہد کی پاکستان آزاد ہوا توا سکا کریڈیٹ تو انگریز کو ملے گا۔ ایسی بات نہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ علماء پارلیمنٹ اور اسمبلی میں چوکیدار کاکام کررہے ہیں اگر خیبرپختونخوا بلوچستان قومی اسمبلی اور سینٹ میں علما ئ نہ ہوتے تو آج اسلام سے متصادم قوانین منظور ہوجاتے۔ علماء نے غیر اسلامی قوانین کے سامنے سییہ پلائی ہوئی دیوار کاکردار ادا کیا ہے۔

اورکرتے رہیں گے۔ اور کوئی بھی قانون سازی اسلام کے منافی ہونے نہیں دیں گے۔ کوئی وزیر اپ کے مدرسے میں آجائے تو اپ اسے بڑے اکابر کہتے ہیں اگر کوئی وزیر اعلی اپ کے مدرسے میں ائے اور ایک دس لاکھ روپے دے تو اپ اس کو بھی بڑا اکابر بنا لیتے ہیں۔ لیکن اگر بڑے بڑے جید علماء دینی مدارس میں جاتے ہیں توان کوکوئی نام نہیں لیتا یہ تضاد ختم ہونا چاہے اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے پالیسی اپنا نی چاہے۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا ہم مسلمانو ں میں یک جوئی نا گزیر ہے یک جوئی نہ ہونے کی وجہ سے ہم میں خلفشار ہے ہم کو اپنے آنے ولوں کو ایک مثال قائم کرنی ہوگی۔ اور اپس میں غلط فہمیاں دور کرنا ہوگی۔ انھوں نے علمائ پر زور دیا کہ وہ سات اٹھ اور نو اپریل کو صد سالہ تقریبات کے لیے بھر پور جدوجہد کریں تاکہ ایک تاریخ رقم ہو اور دینا پر ثابت ہو کہ پاکستان کی سمت کا تعین ہوچکا ہے اور انے والا دور اسلام کے سرفروشوں کا ہے۔ اور اس ملک کی تقدید نفاذ شریعت سے وابستہ ہے۔