حکومت کا فرض بنتاہے کہ وہ بچوں کو مفت تعلیم دلوائیں ‘والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو درپیش مشکلات پر توجہ دیں ‘ نظام تعلیم میں اس وقت تک بہتری ممکن نہیں جب تک اراکین اسمبلی اور بیوروکریٹس کے بچے سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل نہیں کرتے ‘حکومت کی جانب سے بہتر اقدامات کے باعث آج 22ہزار بچے سیکنڈ ٹائم تعلیم حاصل کررہے ہیں

بلوچستان کی سیاسی،مذہبی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کی بات چیت

جمعرات 16 مارچ 2017 23:24

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 16 مارچ2017ء) بلوچستان کی سیاسی،مذہبی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے کہاہے کہ حکومت کا فرض بنتاہے کہ وہ بچوں کو مفت تعلیم دلوائیں ان کے ساتھ ساتھ والدین کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو درپیش مشکلات پر توجہ دیں ،نظام تعلیم میں اس وقت تک بہتری ممکن نہیں جب تک اراکین اسمبلی اور بیوروکریٹس کے اپنے بچے سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل نہیں کرتے ،حکومت کی جانب سے بہتر اقدامات کے باعث آج 22ہزار بچے سیکنڈ ٹائم تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

ان خیالات کااظہار جماعت اسلامی کے سابق صوبائی امیر عبدالمتین اخوندزادہ ،ایڈیشنل ڈائریکٹر ایجوکیشن بلوچستان نظام الدین مینگل ،عاشو فائونڈیشن کی کنٹری ڈائریکٹر عائشہ خان ،کچلاک ویلفیئر سوسائٹی کے ملک عبدالرشید کاکڑ،غزالی ویلفیئر سوسائٹی کے عبدالقیوم کاکڑاوردیگر نے کوئٹہ پریس کلب میں عاشو فائونڈیشن اور کچلاک ویلفیئر سوسائٹی کے زیراہتمام ایک روزہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

کچلاک ویلفیئر سوسائٹی کے ملک عبدالرشید کاکڑنے سپاسنامہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان جو کمزور تعلیمی نظام کی وجہ سے پسماندگی کاشکارہے یہاں اس وقت 12لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہاں بنیادی تعلیم کافقدان ہے ،انہوں نے کہاکہ 8ویں اور5ویں کلاسز کے بورڈ امتحانات کا بائیکاٹ کیاگیاجس کے تحت 20فیصد پرائیویٹ سکولوں نے امتحان میں حصہ لیا جبکہ 80فیصد سکولوں نے اس کا بائیکاٹ کیا ،انہوں نے کہاکہ بائیکاٹ کا مقصد تعلیمی نظام کو بہتربناناہے ہم نے بائیکاٹ اپنے مفادات کی خاطر نہیں کیا بلکہ معیاری نظام تعلیم کیلئے کیاہے ،سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے غزالی ویلفیئر سوسائٹی کے عبدالقیوم کاکڑ نے کہاکہ حکومت کا فرض بنتاہے کہ وہ بچوں کو مفت تعلیم دلوائیں ان کے ساتھ ساتھ والدین کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو درپیش مشکلات پر توجہ دیں ،انہوں نے کہاکہ بلوچستان کی پسماندگی اس وقت تک ختم نہیں کی جاسکتی جب تک کسی وزیر یا سیکرٹری کا بیٹا یا بیٹی خود کسی سرکاری تعلیمی ادارے میں نہ پڑے کیونکہ جب کسی وزیر کا بیٹا یا بیٹی سرکاری ادارے میں پڑھے اور رات کو اپنے والد سے کہیں کہ آج پلاں استاد غیر حاضر تھا آج پلاں پنکھا کام نہیں کررہا تھا ،انہوں نے دعویٰ کیاکہ آج بھی بہت سے سکولز نصابی کتابوں سے محروم ہیں مگر دو ماہ قبل وزیراعلیٰ تعلیم یقین دہانی کراچکے ہیں کہ ہم تمام نصابی کتابوں کو متعلقہ اضلاع میں سکولوں تک پہنچادئیے ہیں ،انہوں حکومت وقت پر زورد یاکہ وہ سکولوں میں مادری زبانوں کو رائج کرنے کیلئے فوری طورپراقدامات کرے ۔

سمینار سے خطاب کرتے ہوئے اقراء سکولز ایسوسی ایشن کے صدر حضر ت علی کوثر نے تعلیمی نظام پر روشنی ڈالی اور کہاکہ حکومت وقت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کو صحت اور تعلیم کی بہترین سہولیات کی فراہمی کیلئے اقدامات کرے مگر یہاں اس کے برعکس اقدامات کئے جارہے ہیں ،سماجی کارکن شاہدہ بابر نے کہاکہ بلوچستان کی پسماندگی کے خاتمے میں پرائیویٹ سکولز کااہم کردارہے ،اس وقت سرکاری سکولز میں 8لاکھ بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ پرائیویٹ سکولز میں اس وقت 7لاکھ 35ہزار بچے زیور تعلیم سے آراستہ ہورہے ہیں حالانکہ حکومت کروڑوں روپے فنڈز سرکاری اداروں پر خرچ کررہی ہیں ۔

جماعت اسلامی کے سابق صوبائی امیر عبدالمتین اخوندزادہ نے کہاکہ تعلیمی نظام ایک اہم ایشو ہے مگر افسوس کہ یہاں تعلیمی نظام ایک طرح کے جبر کاشکار ہے ہم تعلیم کے حوالے سے اپنا اصل کام نہیں کررپارہے ہماری بدقسمتی ہے کہ جس کے پاس زیادہ پیسے ہو وہ اپنے بچوں کو بہترین تعلیمی ادارے میں داخل کراتے ہیں ،ہم آج بھی ماضی میں پھنسے ہوئے ہیں ہمیں تعلیم میں مشکلات درپیش ہیں مگر اس کے حل کیلئے لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے ،اس جدید دور میں بنگلہ دیش اور نیپال نظام تعلیم میں ہم آگے جاچکے ہیں ،حالات کا تقاضاہے کہ اس وقت جو سہولیات تعلیم کے حوالے سے ہمارے پاس موجود ہیں اس سے فائدہ اٹھایاجائے ،ایڈیشنل ڈائریکٹر ایجوکیشن بلوچستان نظام الدین مینگل نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان ایک وسیع عریض رقبے پر محیط صوبہ ہے یہاں کے تعلیمی نظام کی بہتری کیلئے حکومت وقت ریفارمز لانے کیلئے کام کررہی ہے ،انہوں نے کہاکہ ہماری کوشش ہے کہ ہر حال میں تعلیمی نظام کو بہتر بنایاجاسکے ،انہوں نے کہاکہ حکومت وقت نے مادری زبانوں میں تعلیم کی فراہمی کیلئے اقدامات شروع کررکھے ہیں ،حکومت کی جانب سے بہتر اقدامات کے باعث آج 22ہزار بچے سیکنڈ ٹائم تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔

عاشو فائونڈیشن کی کنٹری ڈائریکٹر عائشہ خان نے کہاکہ بلوچستان ایک مالدار صوبہ ہے اگر یہاں کے وسائل کو بہتر انداز میں بروئے کارلائے جائیں توکوئی شک نہیں کہ یہ صوبہ بہت جلد ترقی کی راہ پر گامزن ہو ،انہوں نے کہاکہ قوموں کی ترقی میں خواتین کااہم کردار ہے والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو سکولوں میں داخل کرائے کیونکہ تعلیم ہی کی بدولت ترقی یافتہ ممالک نے ترقی کی ہے ،انہوں نے کہاکہ ہماری تنظیم تین مختلف شعبوں پر کام کررہی ہے جس میں تعلیم بھی شامل ہیں ۔