دنیا بھر میں تقریباً دو ارب افراد میں ٹی بی کا جرثوما منتقل ہوچکاہے، ڈاکٹر سردار ریاض ا حمد

جمعہ 24 مارچ 2017 22:46

دنیا بھر میں تقریباً دو ارب افراد میں ٹی بی کا جرثوما منتقل ہوچکاہے، ..
گوجرانوالہ۔24 مارچ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 مارچ2017ء) ڈویژن کے معروف سینئر پروفیسر وکنسلٹنٹ فزیشن ماہر امراض پھیپھڑا ‘ دمہ و ٹی بی ڈاکٹر سردار ریاض ا حمد نے تپ دق کے عالمی دن کے موقع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً دو ارب افراد میں ٹی بی کا جرثوما منتقل ہوچکاہے مگر متعدد میں یہ غیر فعال ہے البتہ اگر کسی فرد کی قوت مدافعت زیادہ کمزور پڑ جائے تو جرثوما فعال ہو کر تپ دق کا سبب بن جاتاہے۔

محققین کے مطابق ساٹھ فیصد مریضوں کاتعلق پاکستان بھارت انڈونیشیا سے ہے ۔ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو سالانہ پانچ لاکھ افراد تپ دق میں مبتلا ہو رہے ہیں جبکہ تقریباً ستر ہزار لقمہ اجل بن جاتے ہیں دنیا بھر میں اس مرض میں اضافہ ہورہاہے جو ماہرین کے لئے باعث تشویش ہیسیمینار میں ماہر امراض بچگان ڈاکٹر سید زاہد حسین ‘ ڈاکٹر عارف شیخ‘ ڈاکٹر عمیر احمد اورجینکس فارما سیوٹیکل اے ایس ایم طیب جمیل اور ٹی ایم ساجدعلی کے علاوہ دیگر معا لجین نے شر کت کی۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر سردار ریاض ا حمد نے سیمینار سے خطاب کرتے ہو ئے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کے زیراہتمام دنیا بھر میں ہر سال چوبیس مارچ کو تپ دق کا عالمی یوم منایا جاتاہے جس کا مقصداس موذی عارضے سے متعلق ہر سطح تک عوام الناس کو آگاہی فراہم کرنا ہے۔انہوں نے کہاکہ ٹی بی کے خاتمے کیلئے متحد ہوجائیں ‘ عام تپ دق کا علاج سستا آسان اور سوفیصد کامیاب ہے پیچیدگیوں سے بچائو کیلئے علاج کسی صورت ادھورا نہ چھوڑیں۔

جب تک دنیا کے کسی کونے میں ٹی بی کا ایک بھی مریض موجود ہے مرض کا مکمل طور پر خاتمہ ممکن نہیں کیونکہ تپ دق کا ایک مریض سال بھر میں کم از کم دس سے بارہ افراد میں مرض منتقل کرنے کا سبب بنتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے یہاں ٹی بی کے حوالے سے متعدد مفروضات توہمات بھی عام ہیں یاد رکھیں یہ مرض نہ تو چھوت کا ہے اور نہ موروثی۔ مرض میں مبتلا ماں‘ شیر خوار بچے کو بغیر کسی ڈر وخوف کے اپنا دودھ پلا سکتی ہے۔

دوران حمل‘ علاج کرانے سے شکم مادر میں پلنے والے بچے ہرگز کوئی مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے۔ مرضی سے ہاتھ ملانے‘ ساتھ بیٹھنے ‘ زیر استعمال لباس یا برتن استعمال میں لانے سے تپ دق کے لاحق ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا جب کہ اکثر لوگوں کو کہتے سنا گیاہے کہ کوئی غم دکھ درد تپ دق کا سبب بن جاتاہے تو دکھ درد غم ناکامی یا اداسی جیسی کیفیات سے بھی مرض کا کوئی تعلق نہیں۔ اگر بچوں میں ٹی بی لاحق ہونے کی بات کی جائے تو اس کی بھی وہی وجوہ ہیں جو بڑوں میں پائی جاتی ہیں جب کہ طریقہ علاج بھی ایک جیسا ہے البتہ پیدائش کے فوراً بعد بی سی جی کا ٹیکا لگوانے سے نومولود دماغ کی ٹی بی اور میلیری ٹی بی جیسی دیگر شدید اور مہلک اقسام سے محفوظ ہو جاتاہے۔

متعلقہ عنوان :