منی لانڈرنگ کیس: پاکستانی شہری الطاف خانانی کو امریکا میں 68 ماہ قید کی سزا

الطاف خانانی اپنی سزا فلوریڈا کی ایک مقامی جیل میںکا ٹیں گے، سزا مکمل ہونے کے بعد انھیں ملک بدر کرنے کیلئے امیگریشن حکام کے حوالے کیا جائے گا

منگل 4 اپریل 2017 18:10

فلوریڈا (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 04 اپریل2017ء) امریکا کی میامی جیل میں ایک سال سے زائد قید کی سزا کاٹنے کے بعد امریکی ریاست فلوریڈا کی ایک مقامی عدالت نے منی لانڈرنگ کے کیس میں پاکستانی شہری الطاف خانانی کو 68 ماہ قید اور 250000 ڈالر جرمانے کی سزا سنادی۔ میڈیا کو حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق مذکورہ سزا 29 مارچ کو منظور کی گئی۔

اکتوبر 2016 میں ہونے والے ایک معاہدے کے مطابق مجرم قرار دیے جانے کے بعد الطاف خانانی کی جانب سے تفتیش کے دوران مکمل تعاون کرنے اور جرم کی وجوہات کے حوالے سے مکمل تفصیلات کے انکشاف پر پروسیکیوشن کی جانب سے عدالت سے درخواست کی گئی تھی کہ ان کے خلاف موجود دیگر 13 الزامات کو خارج کردیا جائے۔معاہدے میں کہا گیا ہے کہ پروسیکیوشن کی جانب سے سزا کے حوالے سے نرمی کی تجویز پیش کی جائے گی کیونکہ خانانی نے مذکورہ جرم 'کی تفتیش اور پروسیکیوشن میں انتظامیہ سے تعاون کیا ہی'۔

(جاری ہے)

بڑے پیمانے پر ہونے والی تحقیقات کے دوران، جس میں 3 ممالک کی 6 مختلف ایجنسیاں تعاون کررہی تھیں، یہ بات سامنے آئی کہ الطاف خانانی سے طلب کیا گیا تعاون انھیں پیش کی گئی سزا میں نرمی سے کہیں زیادہ تھا۔تقریبا ایک دہائی کیلئے خانانی اینڈ کالیہ انٹرنیشنل (کے کے آئی) پاکستان کی سب سے بڑی اور سب سے نفیس ایکسچینج کمپنی تھی، جس کا نیٹ ورک دنیا بھر میں موجود تھا اور وہ دنیا میں اپنے گاہکوں کیلئے اربوں ڈالر منتقل کیا کرتی تھی۔

امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق خانانی کے گاہکوں میں چین، میکسیکو اور کولمبیا سے تعلق رکھنے والے جرائم پیشہ گروہ اور معروف دہشت گرد تنظیمیں شامل تھیں۔امریکا کے محکمہ خزانہ نے الطاف خانانی کی امریکا میں گرفتاری کے کچھ ماہ بعد نومبر 2015 میں کہا تھا کہ 'الطاف خانانی لشکر طیبہ، داؤد ابراہیم، القاعدہ اور جیش محمد سے اپنے تعلقات کی وجہ سے جانا جاتا ہی'۔

اس بات کا اندازہ لگایا جارہا تھا کہ کے کے آئی کے ایک بینادی ڈائریکٹرز ہونے کی وجہ سے الطاف خانانی کو ان گروپس کے بینک اکاؤنٹس اور درمیانی ذرائع کی تفصیلات کی معلومات کا عمل ہوگا، جن کیلئے وہ رقم منتقل کیا کرتے تھے۔عدالت نے الطاف خانانی کو بیورو آف پریزن کے حوالے کرتے ہوئے تجویز دی کہ وہ اپنی سزا فلوریڈا کے جنوبی ضلع کی ایک مقامی جیل میں گزاریں گے، سزا مکمل ہونے کے بعد انھیں ملک بدر کرنے کیلئے امیگریشن حکام کے حوالے کیا جائے گا۔

ڈرگ انفورسمنٹ ایڈمنسٹریشن (ڈی ای ای) کے ایک آپریشن کے بعد جون 2015 میں الطاف خانانی کو منی لانڈرنگ کے 14 الزامات میں نامزد کیا گیا تھا، ان جرائم کیلئے 20 سال کی قید اور 250000 ڈالر جرمانے کی سزا مقرر ہے۔اس حوالے سے متعدد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تفیش کا دائر امریکا، آسٹریلیا اور متحدہ عرب امارات تک بڑھایا، ان ایجنسیوں میں ڈی ای اے، فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن، امریکی کسٹم اور سرحدی تحفظ، آسٹریلین فیڈرل پولیس، آسٹریلین کرامنل انٹیلیجنس کمیشن، یو اے ای پولیس اور سینٹرل بینک شامل ہیں۔

الطاف خانانی کو ستمبر 2015 میں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ اس وقت سے جیل میں قید ہیں، ابتدائی طور پر ملزم نے تمام الزامات سے انکار کیا تھا اور عدالتی ٹرائل کا مطالبہ کیا تھا۔لیکن گذشتہ سال یکم نومبر کو الطاف خانانی نے منی لانڈرنگ کے حوالے سے سازش کے ایک الزام میں اپنی درخواست میں تبدیلی کی اور امریکی اٹارنی جنرل کے آفس نے دیگر 13 الزامات ختم کرنے پر رضا مندی کا اظہار کیا اور ملزم کی جانب سے تفتیش میں تعاون کے جواب میں سزا میں نرمی کرنے کی درخواست بھی کی۔

اسی دوران محکمہ خزانہ نے ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں 9 اداروں اور چار افراد کو 'خانانی منی لانڈرنگ تنظیم' سے تعلقات پر نامزد کیا گیا۔ان چار افراد میں الطاف خانانی کے بیٹے عبید، بھتیجے حزیفہ اور بھائی جاوید خانانی کا نام شامل تھا جبکہ فہرست میں شامل چوتھا شخص ملزم کا قریبی عزیز اور دبئی میں منی ایکسچینج کمپنی کا جنرل مینجر عاطف پولانی تھا۔

خیال رہے کہ ایک ماہ قبل جاوید خانانی پٴْر اسرار طور پر کراچی میں ایک زیر تعمیر عمارت کی چھت سے گر کر ہلاک ہوگئے، ان کے خاندان نے اسے خود کشی قرار دیا ہے۔اس سے قبل 2008 میں الطاف خانانی اور کے کے آئی کے دیگر ڈائریکٹرز کو پاکستان میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی نے گرفتار کیا تھا اور ان پر حوالہ کے ذریعے 1.5 ارب ڈالر بیرون ملک منتقل کرنے کا الزام تھا یہ وہ موقع تھا جب ملک بین الاقومی معاشی بحران کے اثرات کا شکار ہورہا تھا اور ملک کی قیادت سول انتظامیہ کے حوالے کی جارہی تھی۔

اسی ماہ پاکستان نے ایک ایمرجنسی بیل آؤٹ پیکج کیلئے آئی ایم ایف سے رابطہ کیا تھا تاہم اس کیس کی تفتیش مکمل نہ ہوسکی اور تمام فریقین کو 2011 میں رہا کردیا گیا۔اس فیصلے کے جواب میں حکومت کی جانب سے اپیل دائر نہیں کی گئی تھی تاہم رواں سال جنوری میں وزیر داخلہ نے اس کیس کی انکوئری کا حکم دیا۔اس انکوئری کے تحت سندھ ہائی کورٹ میں ایک اپیل دائر کی گئی جو تاحال تعطل کا شکار ہے۔