آئین کو حالات کے وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے اور سینٹ کواختیاردیئے جائیں ،ْاراکین سینٹ

اپریل 1973ء کو ملک کو متفقہ آئین ملا‘ آئین کو بالا سمجھنے کا مائنڈ سیٹ ضروری ہے ،ْ آئین کو پامال کرنے والے کا پارلیمان کچھ نہیں کر سکی ،ْخود کو مقدس گائے سمجھنے والوں کو اس مقدس دستاویز کے تابع کرنا ہوگا ،ْ آئین کو بطور مضمون لازمی قرار دیا جائے ،ْسینٹ کے اختیارات کے حوالے سے مسائل موجود ہیں ،ْ امید ہے ان مسائل کا حل نکلے گا ،ْسردار اعظم خان موسیٰ خیل ،ْ سینیٹر عثمان کاکڑ ،ْ مشاہد حسین سید ،ْ فرحت اللہ بابر ،ْ اعظم سواتی ،ْ سینیٹر جاوید عباسی ،ْ سینیٹر تاج حیدر ،ْ سینیٹر چوہدری تنویر ،ْ سینیٹر عبد القیوم و دیگر کا اظہار خیال بھٹو کو بابائے دستور پاکستان اور چیئرمین سینٹ کو آئین کو تحفظ دینے والے کا خطاب دیا جائے ،ْرحمن ملک یوم دستور منانے میں صرف سینٹ کا کردار نہیں ،ْ چاروں صوبائی اسمبلیاں‘ صدر مملکت اور سپیکر بھی شامل ہیں ،ْچیئر مین سینٹ

پیر 10 اپریل 2017 21:23

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 اپریل2017ء) اراکین سینٹ نے کہا ہے کہ آئین کو حالات کے وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے اور سینٹ کواختیاردیئے جائیں ،ْ 10 اپریل 1973ء کو ملک کو متفقہ آئین ملا‘ آئین کو بالا سمجھنے کا مائنڈ سیٹ ضروری ہے ،ْ آئین کو پامال کرنے والے کا پارلیمان کچھ نہیں کر سکی ،ْخود کو مقدس گائے سمجھنے والوں کو اس مقدس دستاویز کے تابع کرنا ہوگا ،ْ آئین کو بطور مضمون لازمی قرار دیا جائے ،ْسینٹ کے اختیارات کے حوالے سے مسائل موجود ہیں ،ْ امید ہے ان مسائل کا حل نکلے گا ،ْ وفاقی اکائیوں کو بہتر کردار ادا کرنے کے مواقع ملنے چاہئیں۔

پیر کو سینٹ اجلاس میں یوم دستور کے حوالے سے بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ 1940ء کی قرارداد ملک کو فلاحی ریاست بنانے میں ناکام رہی۔

(جاری ہے)

یہ ملک سیکیورٹی سٹیٹ بن گیا ہے ،ْ آئین توڑنے والوں کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی نہیں کی گئی۔ آئین کو حالات وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے۔ سینٹ کو اختیارات دیئے جائیں۔ پختونوں کا ایک صوبہ قائم کیا جائے ،ْ قومی زبانوں کو آئین کا حصہ بنایا جائے۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ آج 10 اپریل 1973ء کو ملک کو متفقہ آئین ملا‘ آئین کو بالا سمجھنے کا مائنڈ سیٹ ضروری ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے آئین کی بالادستی کو قبول نہیں کیا۔ سیکیورٹی ادارے جو بھی کریں وہ محب وطن ٹھہرتے ہیں اور منتخب وزیراعظم سیکیورٹی رسک قرار پاتا ہے۔ آئین کو پامال کرنے والے کا پارلیمان کچھ نہیں کر سکی ،ْ خود کو مقدس گائے سمجھنے والوں کو خود کو اس مقدس دستاویز کے تابع کرنا ہوگا۔

آئین کو بطور مضمون لازمی قرار دیا جائے۔سینیٹر سردار اعظم خان موسیٰ خیل نے کہا کہ یوم دستور کے حوالے سے ہمارے تحفظات اور خدشات ہیں ،ْپشتونوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان کا ایک صوبہ نہیں بنایا گیا۔ پشتو بولنے والی وحدتوں کو یکجا کرنا چاہیے تھا۔ سینٹ کے اختیارات بڑھائے جائیں۔ غریب کے لئے قانون ہے اشرافیہ کے لئے قانون نہیں ہے۔

اس آئین سے ہمیں کیا ملا ہے اس پر ہمارے تحفظات ہیں۔سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ یوم دستور منانا خوش آئند ہے۔ قوم کو متفقہ طور پر 1973ء کا دستور دینے والے رہنمائوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ سینٹ کے اختیارات کے حوالے سے مسائل موجود ہیں ،ْامید ہے ان مسائل کا حل نکلے گا۔سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ جب یہ آئین بنایا گیا تو ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا تھا۔

کنکرنٹ لسٹ کا تیس سال بعد خاتمہ ہوا۔ ایک دو ہفتے بعد ہی آئین میں ترامیم شروع کردی گئیں تلخیاں شروع ہوگئیں‘ آئین کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ وفاقی اکائیوں کو بہتر کردار ادا کرنے کے مواقع ملنے چاہئیں۔ سینٹ کو زیادہ اختیارات دیئے جائیں۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ آج ہمیں اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کی ضرورت ہے۔

سیاستدان اور سیاسی جماعتیں آمروں کے ہاتھ مضبوط کرتے رہے ہیں۔ این آر او بھی کئے گئے ہیں۔ عوام اور پارلیمان میں رابطوں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ آئین پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ پسماندہ علاقوں کو ترقی دینے اور مساوات قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر چوہدری تنویر خان نے کہا کہ ہر شعبے کو اپنی حدود اور دائرہ کار میں رہ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

1973ء کے آئین کیلئے بڑی قربانیاں دی گئی ہیں۔ ان لوگوں کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ سینیٹر تنویر الحق تھانوی نے کہا کہ آئین اسلام کے تقاضوں کو بھی پورا کرتا ہے۔ 11 اگست کی قائد اعظم کی تقریر کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اگر 1973ء کے آئین پر عمل ہو جائے تو اسلام کے لئے کافی ہے۔ سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ آج کے دن ہمیں متفقہ آئین پر عملدرآمد کی تجدید کا عہد کرنا چاہیے۔

پاکستان بنا تو 1935ء کا ایکٹ نافذ تھا جو کئی سال تک رہا۔ بھٹو نے فہم و فراست سے سب کو اکٹھا کیا اور ملک کو متفقہ آئین دیا۔ آئین توڑنے والوں نے ملک سے غداری کی‘ یہ کام اداروں نے نہیں انفرادی طور پر کیا گیا۔ ان آمروں کو سپورٹ کرنے والے سیاستدان تھے۔ یہ سیاستدان ایک داغ ہیں ،ْ عدلیہ میں بھی بعض لوگوں نے آمروں سے تعاون کیا اور ان آمروں کو وہ اختیارات بھی دے دیئے جو خود عدلیہ کے پاس بھی نہیں تھے۔

ہمیں آئین کی عزت کرنی چاہیے اور اس آئین کو روندنے والا ملک کا وفادار نہیں۔ سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ آئین کی تمام شقوں پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔ سینٹ کے اختیارات کو بڑھایا جائے۔ سینیٹر خالدہ پروین نے کہا کہ 1973ء کا آئین بہترین دستاویز ہے لیکن جنوبی پنجاب جو 62 فیصد حصے پر مشتمل ہے وہ پسماندہ اور محرومیوں کا شکار ہے۔ سینیٹر مظفر حسین شاہ نے کہا کہ سینٹ کے اختیارات بڑھائے جائیں، ابھی ہمیں کافی جدوجہد کرنی ہے۔

1973ء کے معماروں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں لیکن یہ بنیادی قوانین تھے۔ پاکستان کو حقیقی معنوں میں پارٹیسپیٹری فیڈریشن بنانے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر اشوک کمار نے کہا کہ بھٹو نے پاکستان کو آئین دیا‘ آئین ایک مقدس دستاویز ہے۔ آئین میں اقلیتوں کو جو تحفظ فراہم کیا گیا ہے اس پر عمل نہیں ہو رہا۔ اقلیتوں کو ان کے حقوق دینے ہوں گے۔ سینیٹر اے رحمن ملک نے کہا کہ بھٹو کو بابائے دستور پاکستان اور چیئرمین سینٹ کو آئین کو تحفظ دینے والے کا خطاب دیا جائے ،ْ دستور کی خلاف ورزی کرنے والے کو جلد سزا ہو سکتی ہے یا نہیں۔

مختار عاجز دھامرہ نے کہا کہ آئین کے لئے قربانیاں دینے والوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔چیئرمین سینٹ سینیٹر میاں رضا ربانی نے وضاحت کی کہ یہ دن صرف سینٹ نہیں منا رہی‘ چاروں وزراء اعلیٰ کا شکرگزار ہوں کہ آج جو خصوصی اشاعت شائع ہوئی ہے اس میں ان کا بھی تعاون شامل ہے۔ چاروں صوبائی اسمبلیوں ‘ سپیکر قومی اسمبلی کا بھی شکر گزار ہوں۔

صدر پاکستان جو پارلیمان کا حصہ ہیں ان کا پیغام بھی آج کے دن کی مناسبت سے شائع ہوا ہے۔ وزیراعظم نے بھی اپنا پیغام دیا ہے۔ یہ ان سب کی مشترکہ کوشش سے منایا جارہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ دیگر ادارے بھی پارلیمان کے ساتھ اس دن کو منایا کریں گے۔ انہوں نے وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کا اشاعت خصوصی کے حوالے سے تعاون پر بھی شکریہ ادا کیا۔