یو ایس ایڈ پاکستان کو مکئی کے بیجوں کی پیداوار میں خود کفیل بنائے گا، وٖفاقی سکندر حیات خان بوسن

منگل 11 اپریل 2017 16:54

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 11 اپریل2017ء) وزیر برائے قومی غذائی سلامتی و تحقیق سکندر حیات خان بوسن نے پاکستانی کاشتکاروں کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی و تحقیق کا تبادلہ کرنے پر امریکہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ یو ایس ایڈ پاکستان کو مکئی کے بیجوں کی پیداوار میں خود کفیل بنائے گا۔ پاکستانی ادارے ان بیجوں سے مستفید ہوں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ یہ بیج کسانوں کو ان کے مقامی سپلائی اسٹور پر دستیاب ہوں۔

یہ بات وزیر برائے قومی غذائی سلامتی و تحقیق سکندر حیات خان بوسن اور امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کی ڈپٹی مشن ڈائریکٹر جولی چین نے مکئی کی پیداوار سے متعلق منگل کو ایک قومی ورکشاپ کا افتتاح کرتے ہوئے کہی۔

(جاری ہے)

ورکشاپ میں مکئی کے ان نئے بیجوں کی کارکردگی اجاگر کی گئی جو یو ایس ایڈ کے فنڈز سے چلنے والے ایگریکلچرل انوویشن پروگرام (اے آئی پی) کے تحت گذشتہ سال بیس پاکستانی زرعی تحقیقی ادارں اور زرعی بیجوں کی پاکستانی کمپنیوں کو نیشنل ایگریکلچر ریسرچ سینٹر میں فراہم کئے گئے تھے۔

مکئی کے بیجوں کی ان نئی اقسام سے پاکستان میں مکئی کے معیاری ہائیبرڈ بیج کی پیداوار تیزی سے پھیلی ہے۔ یو ایس ایڈ کی ڈپٹی مشن ڈائریکٹرجولی چین نے کہا کہ مکئی کے بیجوں کی ان نئی اقسام کے ساتھ اب ہمارے پاس مقامی سیڈ کمپنیوں اور زرعی تحقیق کے سرکاری اداروں کے لئے مزید زیادہ قابل رسائی اور موسم کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور زیادہ غذائیت کے حامل مکئی کے بیج موجود ہیں۔

گزشتہ سال نئی بیجوں کی فراہمی اس تعاون کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے جو امریکہ پاکستان کو زرعی شعبے میں فراہم کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مکئی کے ان بیجوں کی صلاحیت لاکھوں پاکستانی کسانوں کی زندگی میں بہتری کا موجب بنے گی۔یو ایس ایڈ کے فنڈز سے چلنے والا ایگریکلچرل انوویشن پروگرام پچاس ہائیبرڈ اور اوپن پولینیٹڈ مکئی کی اقسام جو پاکستان کے ماحول سے مطابقت رکھتی ہیں، کی نشاندہی کے لئے پاکستان ایگریکلچر ریسرچ سینٹر (پی اے آر سی) کے ساتھ ملکر کام کررہا ہے۔

مکئی کے بیجوں کی یہ اقسام خشک سالی اور موسم کی حدت کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کی گئی ہیں، جن سے غذائیت (مزید پروٹین، پروٹامن اے اور زنک) میں اضافہ ہوا ہے۔ ان اقسام سے کاشتکاروں اور صارفین دونوں کے لئے پیداواری صلاحیت اور غذائیت میں بہتری رونما ہوئی ہے۔