ٹرمپ خطرناک امریکی صدرنہیںانکی جگہ ہیلری صدر بن جاتیں تو وہ اوباما اور بش کے نقش قدم پر چلتیں،احمدی نژاد

شام پرحملہ ہیلری کلنٹن نے کرایا تھا، صدارتی انتخابات کی دوڑ میں حصہ لینے کا اعلان اس بات کا اظہار ہے کہ ایران میں بہت کچھ بدل گیا ہے،سپریم لیڈر نے اپنی رائے تبدیل کرتے ہوئے مجھے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی تھی ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد کا انٹرویو

منگل 18 اپریل 2017 15:21

تہران /لندن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 18 اپریل2017ء) ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد نے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے خطرناک صدر نہیں ہیں، اگر ان کی جگہ ہیلری کلنٹن صدر بن جاتیں تو وہ باراک اوباما اور جارج بش کے نقش قدم پر چلتیں۔برطانوی خبررساں ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں سابق ایرانی صدر نے الزام عاید کیا کہ شام پرحملہ ہیلری کلنٹن نے کرایا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں محمود احمدی نژاد کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں ٹرمپ زیادہ خطرناک نہیں ہیں۔ کیونکہ کوئی خطرناک شخص کبھی بھی 70 ارب ڈالر کی دولت جمع نہیں کرتا۔انٹرویو میں سابق ایرانی صدر نے کئی دیگر سوالوں کے جواب دیے۔ انہوں نے کہا کہ صدارتی انتخابات کی دوڑ میں حصہ لینے کا اعلان اس بات کا اظہار ہے کہ ایران میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔

(جاری ہے)

جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے صدارتی انتخابات میں حصہ نہ لینے کے سپریم لیڈر کے مشورے پرعمل درآمدکیوں نہیں کیا تو احمدی نژاد نے کہا کہ سپریم لیڈر نے اپنی رائے تبدیل کرتے ہوئے انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی تھی۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ میرا نام انتخابی امیدواروں کی فہرست میں شامل ہے مگر سابق حکومتی مشیر اور معاون خصوصی حمید بقائی کی طرف سے ان کی کھل کرحمایت کی گئی ہے۔

مبصرین کاکہنا ہے کہ سپریم لیڈر کے مشورے کو نظرانداز کرکے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے احمدی نژاد کا اعلان ایک بڑاسرپرائز ہوسکتا ہے۔ احمدی نژاد کی باغیانہ انداز میں صدارتی دوڑ میں آمد سپریم لیڈر کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ایرانی خبر رساں ایجنسی فارس نے بھی اسی طرح اشارہ کرتے ہوئے احمدی نژاد کے انتخابات میں حصہ لینے کے اعلان کو سپریم لیڈر پر تیر پھینکنے کے مترادف قرار دیا۔احمدی نژاد سے پوچھا گیا کہ آیا صدارتی امیدوار بننے کے بعد آپ کی رہبر انقلاب آیت اللہ علی خامنہ ای سے ملاقات ہوئی ہے تو احمدی نژاد نے کہا کہ اگلا سوال پوچھیں۔