تاپی منصوبہ پر عملی کام شروع ہو چکا ہے ،ْ دسمبر 2020تک مکمل ہو جائیگا ،ْ منصوبے سے بجلی بحران کو کم کر نے میں مدد ملے گی ،ْقومی اسمبلی میں وقفہ سوالات

پہلے آئو پہلے پائو کی بنیاد پر گیس میٹرز لگائے جاتے ہیں ،ْ گیس کی ترقیاتی سکیموں کے حوالے سے وفاقی حکومت کا کام متعلقہ ضلع کو فنڈز کی فراہمی ہے ،ْشاہد خاقان عباسی وزارت قانون وفاقی دارالحکومت میں شام کے اوقات میں عدالتوں کے قیام کا منصوبہ بنا رہی ہے ،ْ شیخ آفتاب احمد

جمعرات 20 اپریل 2017 14:24

تاپی منصوبہ پر عملی کام شروع ہو چکا ہے ،ْ دسمبر 2020تک مکمل ہو جائیگا ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 اپریل2017ء) قومی اسمبلی کوبتایاگیا ہے کہ تاپی منصوبہ پر عملی کام شروع ہو چکا ہے ،ْ دسمبر 2020تک مکمل ہو جائیگا ،ْ منصوبے سے بجلی بحران کو کم کر نے میں مدد ملے گی ،ْ پہلے آئو پہلے پائو کی بنیاد پر گیس میٹرز لگائے جاتے ہیں ،ْ گیس کی ترقیاتی سکیموں کے حوالے سے وفاقی حکومت کا کام متعلقہ ضلع کو فنڈز کی فراہمی ہے ۔

جمعرات کو وقفہ سوالات کے دوران وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ تاپی منصوبہ پر عملی کام شروع ہو چکا ہے ،ْ گیس فیلڈ کی ڈویلپمنٹ پر 12 سے 15 ارب سے زائد رقم اور ان ملکوں کے درمیان پائپ لائن پر 8 سے 10 ارب روپے لاگت آئے گی۔ گیس پائپ لائن کی تعمیر پر کام جاری ہے ،ْدسمبر 2020ء تک منصوبہ مکمل ہونے کا شیڈول بنایا گیا ہے، تاپی لمیٹڈ اس منصوبہ پر کام کر رہی ہے ،ْاس میں 85 فیصد ترکمانستان اور پانچ، پانچ فیصد حصہ پاکستان، افغانستان اور بھارت کا ہے۔

(جاری ہے)

وزیراعلیٰ سندھ کے ساتھ گیس کے معاملہ پر تمام امور طے ہو چکے ہیں۔ سندھ کو گیس کا حصہ مل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جو گیس سندھ کو ملتی تھی آج اس سے زیادہ گیس سندھ کو فراہم کی جا رہی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے بے بنیاد بات کی جس پر افسوس ہوا۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے گیس کی فراہمی کے لئے کسی ضلع کا انتخاب نہیں کیا۔

وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل کی جانب سے ایوان کو تحریری طور پر آگاہ کیا گیا کہ تاپی گیس منصوبہ سے بجلی بحران کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ پائپ لائن کی تعمیر سے دور دراز علاقوں میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، ملکی معیشت کو درکار توانائی کی طلب کو پورا کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ منصوبہ جی ڈی پی نمو میں اضافہ میں مددگار ہو سکتا ہے۔ وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ کرک میں اربوں روپے کی گیس چوری ہو رہی ہے، لائن لاسز میں کمی کے لئے صوبائی حکومتوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔

گیس کنکشن کی فراہمی کے لئے کسی رکن قومی اسمبلی کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا، تمام گیس کنکشن میرٹ پر لگائے جاتے ہیں۔ متعلقہ ڈسٹرکٹ آفیسر کو رقوم جاری کر دی گئی ہیں۔ وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل نے ایوان کو تحریری طور پر آگاہ کیا کہ ڈی این ایل پی کے اجراء اور میٹروں کی تنصیب میں ہر درخواست کی باری/میرٹ پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے، کمپیوٹرائزڈ فہرستوں کے ذریعے گیس کنکشن فراہم کئے جا رہے ہیں۔

شیر اکبر خان، حامد الحق اور عمران ظفر لغاری کے سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پہلے آئو پہلے پائو کی بنیاد پر گیس میٹرز لگائے جاتے ہیں، سندھ میں گھریلو صارفین کے لئے گیس کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہو رہی، اگر کسی علاقے میں کوئی مسئلہ ہو تو اسے حل کر دیں گے۔ درخواست دینے کے بعد تین ماہ میں میٹر لگ رہے ہیں۔ وقفہ سوالات کے دوران شہریار خان آفریدی نے کوہاٹ میں گیس کی ترقیاتی سکیموں کے حوالے سے سخت طرز عمل اختیار کرتے ہوئے کہا کہ مقامی رکن قومی اسمبلی کو اس میں اہمیت نہیں دی جاتی۔

اس پر وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ وفاقی حکومت کا کام متعلقہ ضلع کو فنڈز کی فراہمی ہے، ہم فنڈز فراہم کر دیتے ہیں۔ ایم این ایز کی سربراہی میں کمیٹی سکیم کی نشاندہی کرتی ہے جس کے بعد عمل درآمد شروع ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوہاٹ سمیت کسی جگہ بھی گیس میٹر کی تنصیب خلاف ضابطہ ہوئی ہے تو ہمیں بتایا جائے، ہم فوری کارروائی کریں گے۔

ہم تمام ارکان کی عزت کرتے ہیں تاہم دھمکی آمیز رویہ قابل قبول نہیں۔ وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ این ایچ اے دستیاب فنڈز کے مطابق منصوبوں کی منظوری دیتا ہے۔ کراچی ۔ حیدر آباد موٹر وے پر کام شروع ہو چکا ہے۔ ملتان ۔ بہاولپور روڈ کے زیادہ تر حصے کو پختہ کر دیا گیا ہے جبکہ باقی شاہراہ کو پختہ کرنے کا کام جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی اور حیدر آباد میں شاہراہوں کے مسائل کے جائزہ کے حوالے سے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس آئندہ ہفتہ کے دوران کراچی میں ہوگا۔

وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ وزارت قانون وفاقی دارالحکومت میں شام کے اوقات میں عدالتوں کے قیام کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ سپریم کورٹ میں 32058، لاہور ہائی کورٹ میں 2 لاکھ 14 ہزار، سندھ ہائی کورٹ میں 25 ہزار 809، پشاور ہائی کورٹ میں تقریباً 31 ہزار، بلوچستان ہائی کورٹ میں 6277 اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں 13883 مقدمات زیر سماعت ہیں۔

وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ خواتین کی 46 مخصوص نشستیں اور 10 اقلیتوں کی نشستیں ہیں۔ الیکشن کمیشن میں خواتین کے لئے مخصوص نشستوں میں اضافہ کرنے اور معذوروں کے لئے کچھ نشستیں مخصوص کرنے کی تجویز زیر غور نہیں ہے۔ یہ الیکشن کمیشن کے دائرہ کار میں نہیں آتا بلکہ اس کا فیصلہ پارلیمنٹ کر سکتی ہے۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی ان امور پر کام کر رہی ہے۔ اس حوالے سے تمام تجاویز قومی اسمبلی کے سامنے پیش کی جائیں گی۔