سابق آرمی چیف جنرل راحیل کو سعودی عرب کی سربراہی میں اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی کیلئے این او سی جاری

ین او سی جی ایچ کیو کی منظوری کے بعد قانون کے مطابق دیا گیاہے ،ْ وزیر دفاع خواجہ آصف کی تصدیق جنرل (ر) راحیل شریف کو لینے کیلئے سعودی عرب سے خصوصی طیارہ لاہور پہنچا ،ْ اہلیہ اور والدہ بھی روانہ ہوئیں ،ْ نجی ٹی و ی

جمعہ 21 اپریل 2017 16:40

سابق آرمی چیف جنرل راحیل کو سعودی عرب کی سربراہی میں اسلامی فوجی اتحاد ..
اسلام آباد/لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 اپریل2017ء) حکومت پاکستان نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کو سعودی عرب کی سربراہی میں اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی کیلئے این او سی جاری کردیا گیا جس کے بعد وہ خصوصی طیارے کے ذریعے سعودی عرب روانہ ہوئے میڈیا رپورٹس کے مطابق جنرل (ر) راحیل شریف کو لینے کیلئے سعودی عرب سے خصوصی طیارہ لاہور پہنچا تھاان کے ساتھ ان کی اہلیہ اور والدہ بھی سعودیہ روانہ ہوئیں۔

وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے نجی چینل سے گفتگو کے دور ان تصدیق کی کہ سابق آرمی چیف راحیل شریف نے ہم سے سعودی عرب میں کام کرنے کیلئے پوچھا تھا اور اب حکومت پاکستان نے جنرل (ر) راحیل شریف کو اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ کے لئے این او سی جاری کر دیا ہے انہوںنے بتایا کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کو این او سی جی ایچ کیو کی منظوری کے بعد قانون کے مطابق دیا گیا۔

(جاری ہے)

میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کی مدت ملازمت 3 سال کیلئے ہوگی۔ این او سی جاری ہونے کے بعد سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف لاہور سے خصوصی طیارے کے ذریعے سعودی عرب روانہ ہوئے۔نجی ٹی وی نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ جمعہ کی صبح 11 بجے سعودی عرب کا خصوصی طیارہ لاہور پہنچا تھا جو 2 بج کر 10 منٹ پر سابق آرمی چیف راحیل شریف کو لے کر سعودی عرب کیلئے روانہ ہوا۔

اس موقع پر لاہور ائیر پورٹ اور اس کے اطراف میں سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے تھے۔ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی سعودی عرب روانگی کے حوالے سے معلومات کو انتہائی خفیہ رکھا گیا ۔واضح رہے کہ دسمبر 2015 میں سعودی عرب کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لیے اسلامی ممالک کا فوجی اتحاد بنانے کا اعلان کیا گیا تھا جس کا بنیادی مقصد مسلم ممالک کے درمیان سلامتی کے حوالے سے تعاون سمیت فوجیوں کی تربیت اور انسداد دہشت گردی کا بیانیہ وضع کرنا تھا۔ابتداء میں اس اتحاد میں 34 ممالک شامل تھے بعد ازاں مزید ممالک کی شمولت سے اس کی تعداد 41 ہو گئی تاہم ایران سمیت کئی مسلم ممالک اس کا حصہ نہیں ۔