سندھ اسمبلی اجلاس : پاناما کیس میں وزیراعظم نواز شریف کو دو ججوں کی جانب سے نااہل قرار دیئے جانے ، تین ججوں کی جانب سے جے آئی ٹی بنانے کے عمل کو بنیاد بنا کر عہدے سے مستعفی ہونے کی تحریک اور قرارداد متفقہ طورپر منظور

ارکان کی جانب سے تقریر کے دوران وزیر اعظم پر بددیانت سمیت سنگین الزامات کی بوچھاڑ ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ارکان کے درمیان کرپشن اور این آر او کے حوالے سے نوک جھونک کا سلسلہ بھی جاری رہا پاناما لیکس ہم نے نہیں تیسری پارٹی نے لیک کیا ، معاملہ 9 سے 10 ماہ تک قوم کے سامنے رہا، پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ، ملک تنہائی کا شکار ہوا، دنیا ہمارا مذاق اڑا رہی ہے نثار کھوڑو ضیاء الحق سے پہلے آرٹیکل 62 اور 63 بڑے سادہ تھے اس نے امین اور صادق والے نکات ڈالے، اس وقت ان کو اعتراض نہیں ہوا ، یہ ضیاء الحق کے ساتھ کھڑے تھے،سینئر صوبائی وزیر معاملہ اب بھی عدالت میں ہے ، جو اب فیصلہ آیا یہ اکثریتی رائے کا فیصلہ ہے ، یہی اصل فیصلہ ہے، باقی دو ججوں نے اختلافی نوٹ لکھا، ان کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اس کو فیصلہ نہیں کہا جا سکتا، پارلیمانی لیڈر ایم کیو ایم پاکستان یوان میں پیش کی جانے والی تحریک بالکل سادہ اور عام ہے ، اخلاقی طور پر وزیراعظم کو مستعفی ہوجانا چاہیے ، سید قائم علی شاہ

جمعہ 21 اپریل 2017 22:42

سندھ اسمبلی اجلاس : پاناما کیس میں وزیراعظم نواز شریف کو دو ججوں کی ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 21 اپریل2017ء) سندھ اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف سے پاناما کیس کے فیصلے میں انہیں دو ججوں کی جانب سے نااہل قرار دیئے جانے کے اختلافی نوٹ اور تین ججوں کی جانب سے جے آئی ٹی بنانے کے عمل کو بنیاد بنا کر اخلاقی طور پر وزیر اعظم کے عہدے سے مستعفی ہونے کی تحریک اور قرار داد متفقہ طور پر منظور کر لی ہے ۔

ارکان نے تقریر کے دوران وزیر اعظم کو بددیانت سمیت سنگین الزامات لگائے جبکہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ارکان کے درمیان کرپشن اور این آر او کے حوالے سے نوک جھونک کا سلسلہ بھی جاری رہا ۔ جمعہ کو سندھ اسمبلی کے اجلاس میں توجہ دلاؤ نوٹس کے بعد سینئر صوبائی وزیر اور پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو نے ایوان میں تحریک پیش کی ، جس میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ یہ ہاؤس مطالبہ کرتا ہے کہ پاناما کیس میں دو سینئر ججوں نے وزیر اعظم پاکستان کو صادق اور امین نہ قرار دیتے ہوئے انہیں نااہل قرار دینے کے لیے کہا ہے ۔

(جاری ہے)

لہذا ان ججوں کے اختلافی نوٹ کے بعد وزیر اعظم میاں نواز شریف ضروری ہے کہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں ۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے خرم شیر زمان اور ڈاکٹر سیما ضیاء کی قرار داد تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر ثمر علی خان نے پیش کی ۔ اس قرار داد میں بھی یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ پاناما کیس میں دو ججوں کی جانب سے نواز شریف کو واضح طور پر نااہل قرار دینے اور تین ججوں کی جانب سے جے آئی ٹی کے ذریعہ مزید تحقیقات کرنے کے فیصلے کے بعد نواز شریف اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں ۔

پیپلز پارٹی کی تحریک اور تحریک انصاف کی قرار داد ایوان نے متفقہ طور پر منظور کر لی ۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے نثار احمد کھوڑو نے کہا کہ پاناما لیکس ہم نے نہیں تیسری پارٹی نے لیک کیا ۔ یہ معاملہ تقریباً 9 سے 10 ماہ تک قوم کے سامنے رہا اور پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی اور ملک تنہائی کا شکار ہوا ۔ دنیا ہمارا مذاق اڑا رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے اسمبلی میں تقریر کی ، جو پوری قوم نے سنی ۔

اس میں صفائی پیش کرنے کی کوشش کی اور پھر قوم سے خطاب میں ایک اور بیان دیا ۔ اس میں دوسری کہانی سنائی ۔ سپریم کورٹ میں تیسری کہانی پیش کی ۔ حالانکہ سب سنتے آ رہے ہیں کہ 1990-91 سے لندن فلیٹ کس کے ہیں ۔ ضیاء الحق سے پہلے آرٹیکل 62 اور 63 بڑے سادہ تھے لیکن ضیاء الحق نے امین اور صادق والے نکات ڈالے ۔ اس وقت ان کو اعتراض نہیں ہوا ۔ یہ ضیاء الحق کے ساتھ کھڑے تھے ۔

نثار کھوڑو نے کہا کہ نواز شریف کے وکیل نے عدالت میں پارلیمانی تقریر کو سیاسی تقریر قرار دیا اور اس طرح قوم کا مذاق اڑایا گیا ۔ کبھی میاں شریف بات ہوئی اور کبھی قطری شہزادے کی بات ہوئی ۔ کہاں سعودی عرب اور کہاں اسٹیل ملز ۔ انہوں نے کہا کہ ممکن ہے کہ ہم عدالت کے حوالے سے ایک مخصوص سوچ رکھتے ہوئے ہم عدالت نہیں گئے ۔ دوسرے لوگ عدالت میں گئے ۔

دو ججوں نے کھل کر کہا کہ نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے ۔ یہ جھوٹے ہیں اور ان کو نااہل قرار دینے کا حکم دے دیا ۔ دوسرے تین ججوں نے عملاً ان کی تائید کی ہے کیونکہ انہوں نے یہ نہیں کہا ہے کہ وہ امین اور صادق ہیں ۔ تاہم انہوں نے صرف مجرموں کی طرح جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے صفائی دینے کا موقع دیا ہے ۔ یہ کیا عزت ہے ۔ جب دو ججوں کی جانب سے امین اور صادق ہونے کی کلین چٹ دے دی گئی ہے ۔

اس لیے ہم اس تحریک کے ذریعہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف استعفیٰ دیں ۔ یہ سندھ کی آواز ہے ۔ تحریک پر اظہار خیال کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے پارلیمانی لیڈر سید سردار احمد نے کہا کہ معاملہ اب بھی عدالت میں ہے اور عدالت کا جو اب فیصلہ آیا ہے ۔ یہ اکثریتی رائے کا فیصلہ ہے اور یہی اصل فیصلہ ہے ۔ باقی دو ججوں نے اختلافی نوٹ لکھا ہے ۔

ان کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اس کو فیصلہ نہیں کہا جا سکتا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے کیس میں بھی تین ججوں نے اختلافی نوٹ لکھے تھے لیکن اس کے باوجود اس کو فیصلہ نہیں کہا جا سکتا ہے ۔ فیصلہ وہی ہے ، جو اکثریتی ہے ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ تحریک قبل از وقت ہے ۔ سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا کہ ایوان میں پیش کی جانے والی تحریک بالکل سادہ اور عام ہے کہ دو ججوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ وزیر اعظم نااہل ہیں اور تین ججوں نے اس سے اختلاف بھی نہیں کیا بلکہ دو ججوں نے نااہلی پر فوری طور پر عمل کرنے اور تین ججوں نے جے آئی ٹی کی رپورٹ تک عمل درآمد روک دیا ہے ۔

عملاً پانچوں ججوں نے صادق و امین نہ ہونے کا کہا ہے ۔ اخلاقی طور پر وزیر اعظم کو مستعفی ہونا چاہئے ۔ ماضی میں چھوٹے حادثات پر بھی لوگ استعفی دیتے تھے ۔ بہتر یہی ہے کہ وزیر اعظم بطور وزیر اعظم ملزم کے طور پر جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کی بجائے مستعفی ہو کر عام شہری کے طور پر جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں ۔ ان کے پاس ایوان میں اکثریت ہے ۔

اگر الزامات غلط ثابت ہوتے ہیں تو دوبارہ بے شک وزیر اعظم بن جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے بعض ارکان کی جانب سے این آر او کے ذکر پر سید قائم علی شاہ نے کہا کہ جب بات کریں گے تو بہت دور تک چلی جائے گی ۔ ہمیں 7 سال ملے اور ہم نے جو خدمت کی ہے ، وہ سب کے سامنے ہے ۔ آج غربت مارشل لاء دور کی پیداوار ہے اور مارشل لاء کا کون حصہ تھا ، سب کو پتہ ہے ۔

ہماری حکومت نے تین لاکھ افراد کو روزگار دیا ۔ یہاں پر ایک گز زمین کے لیے لوگ مارے جاتے ہیں لیکن ہمارے حکومت نے خواتین کو بااختیار بنا دیا اور آصف علی زرداری کے حکم پر 18 نہیں 25 ، 25 ایکڑ زمین غریب خواتین کو دی گئی ۔ یہ ہمارے زرداری صاحب کا کمال ہے ۔ انہوں نے ایم کیو ایم کے ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں کراچی کے حوالے سے کسی ٹائم کھل کر بات کروں گا کہ پیپلز پارٹی نے کراچی کی کتنی خدمت کی ہے ۔

ہماری خدمات عوام کے سامنے ہے ۔ قائم علی شاہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی سب کے لیے ہے اور کسی کے لیے خاص نہیں ۔ یہ ایک سمندر ہے ۔ ہم کرپشن کے خلاف ہیں ۔ ہم نے کرپشن کے خلاف قوانین بنائے ہیں ۔ آپ حکومتوں میں رہے اور آپ نے کون سا قانون بنایا ہے ۔ ذرا ہمیں بھی بتا دیں ۔ انہوں نے کہا کہ عوام جانتے ہیں کہ کراچی کے حالات پہلے کیسے تھے اور این آر او کس کے لیے بنا تھا ۔

ہم لوگوں کے نام بتا سکتے ہیں اور کس نے بنایا تھا ۔ یہ بھی بتا سکتے ہیں ۔ اس کے ساتھ کون تھا اور اس جنرل نے کیا گل کھلائے ۔ اب تو آپ کو ان کو بھی آن کرنا چاہئے ۔ میں لندن کی بات نہیں کروں ۔ شاید اب بھی آپ کو اس پر اعتراض ہو ۔ پیپلز پارٹی کے نواب تیمور نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ فیصلہ آ چکا ہے ۔ یہ کتنے شرم کی بات ہے کہ دو جج اس کو نااہل قرار دیں اور وہ اپنے عہدے پر چمٹا رہے ۔

تین پنجابی ججوں نے جئے پنجاب کا نعرہ لگایا اور دو غیر پنجابی ججوں نے انصاف سے کام کیا ۔ بھٹو کے حوالے سے بھی چار پنجابی ججوں نے بھٹو کے خلاف فیصلہ دیا اور تین غیر پنجابی ججوں نے فیصلے سے اختلاف کیا ۔ پاناما کیس میں نواز شریف کی جگہ پیپلز پارٹی یا یوسف رضا گیلانی ہوتے تو کیا ایسا ہی فیصلہ آتا ۔ اب تو شرم کرو نواز شریف ۔ ملک کا خیال کرو اور استعفی دے دو ۔

پیپلز پارٹی کے جام خان شورو نے کہا کہ 20 سال تک تاریخ میں یاد رکھنے کے فیصلے کا انتظار تھا ۔ تمام پانچ ججوں نے وزیر اعظم کو صادق و امین قرار نہیں دیا ۔ جب عدالت فیصلہ نہیں کر سکتی ہے تو کیا چوہدری نثار کے ماتحت افسران پر مشتمل جے آئی ٹی فیصلہ کرے گی ۔ خط نہ لکھنے پر پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم کو گھر بھیج دیا گیا ۔ یہ ثابت ہو گیا ہے کہ ان کے خلاف اور ہمارے حق میں فیصلے نہیں آئیں گے ۔

جے آئی ٹی کا لفظ سنتے ہی نواز شریف کو غیرت اور شرم آنی چاہئے تھی ۔ اس لیے ہمارا یہ ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ نواز شریف اور غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عہدے سے مستعفی ہو جائیں ۔ مسلم لیگ (فنکشنل) کی خاتون رہنما مہتاب اکبر راشدی نے کہا کہ میں اس نکتے سے اختلاف کرتی ہوں کہ معاملہ عدالت میں ہونے کی وجہ سے بات نہیں ہو سکتی ۔ فیصلہ آ چکا ہے اور اس پر بات ہو سکتی ہے ۔

یہ عجیب کیس ہے کہ دو طرفہ مٹھائیاں تقسیم ہو رہی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ مدعی بھی اور مدعا علہی دونوں خوشی منا رہے ہیں ۔ نقصان صرف عوام کا ہوا ہے ۔ عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے ۔ یہ فیصلہ ادھر نہ ادھر ہے ۔ مدعی کی اخلاقی فتح شریفوں کی حقیقی فتح اور عوام صرف پسے جا رہے ہیں ۔ عوام کو سوائے مایوسی کے کچھ نہیں ملا ۔ انہوں نے مختلف اشعار کے ذریعہ بھی اپنی تقریر میں جذبات کا اظہار کیا ۔

ایم کیو ایم کے صابر حسین قائم خانی نے کہا کہ ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہئے ۔ یہاں این آر او بھی آیا ہے ، جس سے سب نے فائدہ اٹھایا ہے ۔ سوائے پیپلز پارٹی کے ۔ ہم طویل عرصے تک مفاہمت کی بات کرتے رہے اور بہتی گنگا میں سب نے ہاتھ دھوئے ۔ آج مفاہمت اس لیے ختم ہو رہی ہے کہ کسی کی دم پر پاؤں آ گیا ہے ۔ جو پکڑا گیا ، وہ بھی چور ہے اور جس پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں ، وہ بھی چور ہے ۔

سب کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے ۔ تحریک انصاف کے خرم شیر زمان نے کہا کہ آج میں اپنی تقریر کا آغاز اس بات سے کرتا ہوں کہ کوئی شرم ہوتی ہے ، کوئی حیاء ہوتی ہے ۔ دنیا کی تاریخ میں ایسا کوئی فیصلہ نہیں دیا گیا ہے ۔ انہوں نے وزیر اعظم کا نام لیے بغیر کہا کہ ان کے بارے میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ وہ صادق اور امین نہ رہے ۔ ذرا شرم ہو تو چلو بھر پانی میں ڈوب کر مریں ۔

انہوں نے کہا کہ میں عمران خان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے بے نقاب کیا ۔ جو قطری خط لہرایا جا رہا تھا ، اس کو بھی عدالت نے مسترد کر دیا ۔ وزیر اعظم مستعفی ہوں اور قوم کی مزید توہین نہ کریں ۔ پیپلز پارٹی کی سید شہلا رضا نے کہا کہ دو ججوں نے واضح طور پر نااہل قرار دیا ہے ۔ جس طرح ہم نائن الیون کو جوڑ کر لکھتے ہیں ، اسی طرح کل کے دن کو بھی 420 کے نام سے یاد کیا جائے گا ۔

ایک صدر کے خلاف خط نہ لکھنے پر وزیر اعظم کو گھر بھیج دیا گیا ، جو روز عدالت میں آتے تھے لیکن جس وزیر اعظم کے خلاف اتنا بڑا الزام ہے ، وہ کبھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے ۔ اس جے آئی ٹی کے سامنے کیا وزیر اعظم کے بچے پیش ہوں گے ، جس جے آئی ٹی کے سامنے ملک توڑنے کی بات کرنے والے الطاف حسین بھی پیش نہیں ہوئے اور ان کو بھی نہیں لایا جا سکا ۔

انہوں نے کہا کہ کمیشن بنتا تو اچھا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ سیاست ہلے کا نام نہیں ۔ سیاست سمجھداری کانام ہے ۔ کسی سے مشورہ ہی کر لیا جاتا ۔ مفاہمت نظام ، ملک اور جمہوریت کے لیے کیا ۔ این آر او میں صرف آصف علی زرداری نہیں بلکہ 8 ہزار سے زائد وہ کون افراد تھے ، جنہوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ۔ ان کا تعلق پیپلز پارٹی سے نہیں تھا ۔ سب سے زیادہ احتساب پیپلز پارٹی کا ہوا ہے ۔

کاش احتساب سب کا برابر ہوتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس فیصلے سے نظریہ ضرورت کی بو آ رہی ہے ۔ منظور وسان نے کہا کہ دراصل پانچوں ججوں کا ایک ہی فیصلہ ہے کہ وزیر اعظم امین اور صادق نہیں رہے ۔ دو نے آج سے ہی عمل درآمد کا کہا ہے اور تین نے 60 روز کے بعد عمل کی بات کی ہے ۔ انہوں نے ایم کیو ایم کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ میں یہ مانتا ہوں کہ این آر او غلط تھا اور 8 ہزار کیسز کس کے ختم ہوئے ۔

میں یہ بھی مانتا ہوں کہ ہم نے مفاہمت آپ سے کی اور یہ ہماری غلطی تھی اور آئندہ اس غلطی کو نہیں دہرائیں گے ۔ تحریک انصاف کے ثمر علی خان نے کہا کہ ہر شعبے میں کرپشن کی انتہا ہو چکی ہے ۔ یہاں سب چلتا ہے ۔ تمام کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے ۔ یہ ساری مصیبت این آر او کا ہے ۔ جب بھی مشرف مل جائے ۔ میں ان سے پوچھوں گا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا ۔

ایم کیو ایم کے خواجہ اظہار الحسن نے کہاکہ عدالت سے اکثریت کا فیصلہ آیا ہے اور اب جے آئی ٹی کی عدالت خود نگرانی کرے گی ۔ اس تحریک میں اگر کرپشن ، منی لانڈرنگ میں ملوث دیگر افراد کے خلاف بھی کارروائی کا مطالبہ ہوتا تو اچھا ہوتا ۔ وزیر اعظم کے ھوالے سے جے آئی ٹی بنی ہے اور کرپشن میں ملوث دیگر افراد کے خلاف بھی جے آئی ٹی بننی چاہئے ۔

انہوں نے کہا کہ ایوان میں ججوں کے حوالے سے جو الفاظ کہے گئے ہیں ، میں اس کی مذمت کرتا ہوں ۔ یہ بات بھی درست ہے کہ فیصلے پر وزیر اعظم پر سخت الزام ہے ۔ وزیر اعظم کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ احتساب سب کا ہو اور احتساب شخصیات ، کرسی ، وزیر اعظم یا صدر کے عہدے کے لیے نہیں سب کے لیے ہونا چاہئے ۔ اب اداروں کو بھی مضبوط کرنا ہوگا ۔ نیب نے اسی کیس میں ساڑھے 6 ہزار ارب روپے کے 180 کیسز کا ڈیٹا پیش کیا ہے ۔

ان سب کی اسی طرح جے آئی ٹی بننی چاہئے ۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ جس دن حلف اٹھائیں ، اسی دن کرپشن کے خلاف جدوجہد کا عہد کریں ۔90 فیصد اداروں کے سربراہ کرپٹ ہیں اور کرپشن کے لیے کام کر رہے ہیں ۔ 1990 ء سے ہماری درخواست پڑی ہوئی ہے کہ جن لوگوں نے قرضے معاف کرائے ، ان سب کا احتساب ہو ۔ انہوں نے کہا کہ یہ تحریک میوزیکل چیئر کے لیے نہیں عوام کے لیے ہونی چاہئے ۔

عوام کچرے کی صفائی مسائل کا حل چاہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حکمرانوں کے اعمال نے اس ملک کو اس نہج تک پہنچایا ۔ این آر او کا اب متحدہ سے کوئی تعلق نہیں ۔ ہمارے لوگ تو 25 سال قبل کے چھوٹے چھوٹے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں ۔ منظور وسان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ آپ نے ہم سے مفاہمت کی لیکن یہ مفاہمت نہیں منافقت تھی ۔ وزیر اعظم کے خلاف تحریک اور قرار داد منظور ہونے کے بعد اسپیکر نے اجلاس پیر کی دوپہر دو بجے تک ملتوی کر دیا ۔