آئی ایس پی آر کی جانب سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان کا اعترافی بیان جاری

واہگہ بارڈر حملہ، ملالہ یوسفزئی پر حملہ،کرنل شجاع خانزادہ پر حملہ کرنے کی ذمہ داری قبول کی۔ کالعدم ٹی ٹی پی نے اسلام کی غلط تشریح کر کے لوگوں بالخصوص نوجوان نسل کو گمراہ کیا، پاک فوج کے کامیاب آپریشنز سے جماعت الاحرار کے ٹھکانے تباہ ہوئے جن میں ان کے کمانڈرز بھی مارے گئے۔ شمالی علاقہ جات میں پاک فوج کے آپریشنز کے بعد ان کے کمانڈرز اور جنگجوؤں میں خاصی مایوسی پھیلی۔ احسان اللہ احسان کے انکشافات

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین بدھ 26 اپریل 2017 14:14

آئی ایس پی آر کی جانب سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان ..
راولپنڈی (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 26 اپریل 2017ء) : کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان کا اعترافی بیان جاری کر دیا گیا۔ اعترافی بیان آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کیا گیا ۔ اپنے اعترافی بیان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے ترجمان احسان اللہ احسان کا کہنا تھا کہ میرا اصل نام لیاقت علی ہے۔ میں نے 2008ء میں کالعدم ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی۔

تب میں کالج کا طالبعلم تھا۔ 2008ء کے اوائل ہی میں تحریک طالبان پاکستان میں شامل ہو گیا۔ ترجمان نے کہا کہ میں ٹی ٹی پی مہمند ایجنسی کا ترجمان بھی رہا ہوں۔ جس کے بعد میں ٹی ٹی پی کا مرکزی ترجمان بنا۔ میں جماعت الاحرار پاکستان کا ترجمان بھی رہا۔ میں نے ان 9 سالوں میں ٹی ٹی پی میں بہت سی چیزوں کو دیکھا۔ احسان اللہ احسان نے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے اسلام کے نام پر لوگوں کو گمراہ کر کے خصوصا نوجوان طبقے کو اپنے ساتھ بھرتی کیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ یہ لوگ جو نعرہ لگاتے تھے خود بھی اس پر پورا نہیں اترتے تھے۔امرا بنا بیٹھا ایک مخصوص لوگوں کا ٹولہ بے گناہ مسلمانوں سے بھتہ لیتا تھا۔ یہ لوگوں کا قتل عام کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف علاقہ جات میں دھماکے کرتے تھے۔ اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں پر بھی حملے کرتے ہیں۔ لیکن اسلام ہمیں اس بات کر ہرگز درس نہیں دیتا۔ قبائلی علاقوں میں آپریشن بڑھتے ہی تنظیم کی قیادت کی دوڑ تیز ہو گئی۔

ہر کوئی اقتدار حاصل کرنا چاہتا تھا ۔آپریشن کے دوران ہر بندہ چاہتا تھا کہ وہ تنظیم کا امیر بنے۔ حکیم اللہ کی ہلاکت کےبعد نئے امیرکیلیے انتخابی مہم چلائی گئی۔ امیر کی دوڑمیں عمرخالد خراسانی، ملا فضل اللہ ،خان سید سجنا شامل تھے۔ ہر کوئی اقتدار حاصل کرنا چاہ رہا تھا تو شوریٰ نے فیصلہ کیا قرعہ اندازی کرائی جائے۔ قرعہ اندازی کے ذریعے ملافضل اللہ کو امیر بنادیا گیا۔

ایسی تنظیموں سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں جس کا امیر ہی قرعہ اندازی سے مقرر کیا جائے؟ اور پھر امیر بھی ایسے شخص کو بنایا گیا جس کا کردار ایسا ہے کہ انہوں نے اپنے اُستاد کی بیٹی کے ساتھ زبردستی شادی کی اور ان کو لے گئے ۔ ایسی شخصیات اور ایسے کردار اسلام کی خدمت نہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی اسلام کی خدمت کر رہے ہیں۔ احسان اللہ احسان نے اپنے اعترافی بیان میں کہا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع ہونے کے بعد ہم افغانستان چلے گئے۔

وہاں میں نے دیکھا کہ ان لوگوں کے افغانستان میں موجود ساتھیوں کے این ڈی ایس اور ’را‘سے تعلقات تھے۔ انہوں نے تنظیم کو سپورٹ بھی کیا ۔ بھارت اور این ڈی ایس کی جانب سے انہیں مالی معاونت بھی فراہم کی گئی۔ این ڈی ایس اور’را‘ نے طالبان کو اہداف دیے اور انہوں نے ہر کارروائی کی قیمت وصول کی۔سینئیر قیادت نے جنگجوؤں کو پاک فوج کے سامنے لڑنے کے لیے چھوڑ دیا اور خود محفوظ ٹھکانوں پر چلے گئے۔

انہوں نے کہا کہ جب  این ڈی ایس اور را سے مدد لینا شروع کی تو میں نے عمر خراسانی سے کہا کہ یہ جو ہم کر رہے ہیں ، اس طرح ملک میں کارروائیاں کر کے ہم کفار کی مدد کر رہے ہیں۔ یہ ایک قسم کی کفار کی خدمت ہے جس پر عمر خراسانی نے کہا کہ پاکستان میں تخریب کاری پھیلانے کے لیے اگر مجھے اسرائیل نے بھی مدد فراہم کی تو میں مدد لے لوں گا اور تخریب کاری پھیلاؤں گا۔

جس کے بعد میں سمجھ گیا کہ یہ سب ایک خاص ایجنڈے اور ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان تنظیموں نے افغانستان کے اندر کمیٹیاں بنائی ہوئی ہیں۔ جو  این ڈی ایس اور را سے روابط رکھتے ہیں۔ بھارت کی جانب سے تنظیموں کو شناختی کارڈ جیسی ایک دستاویز بھی دی گئی تاکہ نقل و حرکت میں آسانی ہو۔ اگر یہ نہ ہو تو افغانستان کی سکیورٹی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے نقل و حرکت کرنا بہت مشکل ہو۔

ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے باقاعدہ افغان فورسز سے رابطہ ہوتا تھا۔ فورسز کی جانب سے انہیں راستہ بھی فراہم کیا جاتا تھا۔ اور نقل و حرکت بھی ان کی مرضی سے ہوتی تھی۔ پاک فوج کے آپریشن کے دوران افغانستان کے پرچہ اور لال پورہ کے علاقوں میں جماعت الاحرار کے جو کیمپس تباہ ہوئے ان میں کچھ کمانڈرز بھی مارے گئے۔ حملے کے بعد جماعت الاحرار کو محفوظ ٹھکانوں کو چھوڑنا پڑا۔

پاک فوج کی ان کامیاب کارروائیوں کے بعد جماعت الاحرار کے گڑھ ، ان کے مرکز پر کمانڈرز اور نچلے طبقے کے جنگجوؤں میں مایوسی پھیل گئی۔ جو لوگ وہاں پر پھنسے ہوئے ہیں میں ان کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اب بس کرو اور امن کا راستہ اختیار کرو۔ اور پُرامن زندگی میں واپس آ جاؤ۔ احسان اللہ احسان نے مزید بتایا کہ آپریشنز کے بعد جب میڈیا پر ان کو کوریج ملنا بند ہوئی تو ان لوگوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لے کر کم عمر اور معصوم نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔

ان لوگوں نے نوجوان نسل کو اسلام کی غلط تشریح کر کے ورغلایا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر پیغامات شئیر کر کے پروپیگنڈہ بھی کیا جس سے نوجوان آسانی سے ان کے جال میں پھنستے چلے گئے۔ میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والے نوجوانوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ وہ ان لوگوں کے پروپیگنڈہ میں قطعی طور پر نہ آئیں۔ یہ لوگ اپنے ذاتی مقاصد کے لیے غیروں سے کھیل رہے ہیں۔

آخر میں احسان اللہ احسان نے کہا کہ یہ تمام وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر میں نے تنظیم چھوڑ کر خود کو رضاکارانہ طور پر پاک فوج کے حوالے کر دیا ہے۔ اپنے اعترافی بیان میں احسان اللہ احسان نے واہگہ بارڈر حملہ، ملالہ یوسفزئی پر حملہ،کرنل شجاع خانزادہ پر حملہ کرنے کی ذمہ داری قبول کرنے کے ساتھ ساتھ مزید دس بڑے دہشتگردی کے واقعات کی ذمہ داری بھی قبول کی۔ احسان اللہ احسان نے اپنے اعترافی بیان میں گلگت بلتستان میں 9 غیرملکی سیاحوں کے قتل کی ذمہ داری بھی قبول کی۔