طالبان کے بھارتی اور افغان خفیہ ایجنسیوں سے رابطے ہیں: احسان اللہ احسان کا اعترافی بیان

ملک دشمن عناصر کیلئے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی غرض سے کام کیا ، مولوی فضل اللہ جیسے لوگوں نے ہمارا غلط استعمال کرکے ملک کیخلاف استعمال کیا، فضل اللہ نے اپنے استاد کی بیٹی کیساتھ زبردستی شادی کی اسلام کے نام پر معصوم لوگوں کو ورغلا کر سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں سمیت عوامی مقامات پر دھماکے کرائے ’’را‘‘ اور این ڈی ایس کو بھاری قیمت کے عوض اہداف فراہم کئے، افغان فورسز باقاعدہ طور پر مولوی فضل اللہ سمیت دیگر انتہائی خطرناک دہشت گردوں کو افغانستان میں داخل ہونے کا راستہ اور افغانی شناختی کارڈ جاری کرتے ہیں،سابق ٹی ٹی پی ترجمان

بدھ 26 اپریل 2017 18:01

طالبان کے بھارتی  اور افغان خفیہ ایجنسیوں سے رابطے ہیں: احسان اللہ احسان ..
راولپنڈی، اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 26 اپریل2017ء) پاک فوج نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کا اعترافی ویڈیو بیان جاری کردیا جس میں احسان اللہ احسان نے اعتراف کیا ہے کہ ملک دشمن عناصر کیلئے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی غرض سے کام کیا ہے ، مولوی فضل اللہ جیسے لوگوں نے ہمارا غلط استعمال کرکے ہمیں اپنے لوگوں اور ملک کیخلاف استعمال کیا ، اسلام کے نام پر معصوم لوگوں کو ورغلا کر سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں سمیت عوامی مقامات پر دھماکے کرائے، بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کو بھاری قیمت کے عوض اہداف فراہم کئے، افغان فورسز باقاعدہ طور پر مولوی فضل اللہ سمیت دیگر انتہائی خطرناک دہشت گردوں کو افغانستان میں داخل ہونے کا راستہ فراہم کرتی ہیں اور ان لوگوں کے باقاعدہ افغانی شناختی کارڈ بنے ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کی گئی ویڈیو میں احسان اللہ احسان نے اپنے اعترافی بیان میں کہا ہے کہ میرا تعلق مہمند ایجنسی سے ہے 2008ء کے اوائل میں نے تحریک طالبان میں شمولیت اختیار کی اس وقت میں کالج کا سٹوڈنٹ رہاہوں اس وقت میں ٹی ٹی مہمند ایجنسی کا ترجمان بھی رہا ہوں ،اس کے بعد میں ٹی ٹی پی کے مرکزی ترجمان اور جماعت الاحرار کا ترجمان بھی رہا ہوں۔

ٹی ٹی پی والوں نے اسلام کے نام پر لوگوں کو گمراہ کرکے بھرتی کیا بالخصوص نوجوان طبقے کو بھرتی کیا گیا یہ ایسا ٹولہ ہے جو امراء بنے بیٹے ہیں لوگوں سے بھتے لیتے ہیں ، لوگوں کا قتل عام کرتے ہیں ، عوامی مقامات پر دھماکے کرتے ہیں، سکولوں ، کالجوں ، یونیورسٹیوں پر حملے کرتے ہیں تاہم اسلام ہمیں اس چیز کا درس نہیں دیتا جب قبائلی علاقوں میں آپریشنز شروع ہوئے تو ان لوگوں کے اندر جو قیادت کی دوڑ تھی اور بھی تیز ہوگئی اور ہر کوئی چاہتا تھا تنظیم کا لیڈر بنے ۔

اعترافی میں بیان میں احسا ن اللہ احسان نے بتایا کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد انتخابات کی طرح ایک انتخابی مہم چلائی اور اس دوڑ میں عمر خالد خراسانی ،خان سید سجنا ، مولوی فضل اللہ یہ سب لوگ شامل تھے ہر کوئی اقتدار حاصل کرنا چاہ رہا تھا تو پھر شوریٰ نے فیصلہ کیا کہ قرعہ اندازی کی جائے ایسی قرعہ اندازی کا کیا فائدہ جس سے امیر ایسے شخص کو بنایا جائے جس نے اپنی استاد کی بیٹی کے ساتھ زبردستی شادی کی ہوایسے شخص اور لوگ نہ تو اسلام کی خدمت کرسکتے ہیں اور نہ ہی کریں گے پھر اس کے بعد افغانستان میں آپریشن شروع ہوا اور ہم سب بھاگ کر افغانستان چلے گئے اور پھر وہاں پر ان لوگوں کے انڈین خفیہ ایجنسی را اور افغان خفیہ این ڈی ایس کے ساتھ تعلقات بنے ، انہوں نے ان کو مالی سپورٹ حاصل کرکے اہم اہداف دیے انہوں نے ان سے ہر کارروائی کی قیمت وصول کی ۔

پھر ان لوگوں نے پاک فوج کیساتھ لڑنے کے لئے جنگجوئوں کو چھوڑ دیا اور خود کمین گاہوں میں چھپ گئے جب انہوں نے بھارت سے مدد حاصل کی تو میں نے احتجاج کرتے ہوئے عمر خراسانی سے کہا کہ یہ تو ہم کفار کی مدد کررہے ہیں اور اپنے ہی لوگوں کو مار کر ان کی مدد کررہے ہیں یہ تو کفار کی خدمت ہے ۔معصوم لوگوں کو اسلام کے نام پر ورغلا کر ان کو جہاد کرایا ، اسلام کے نام پر سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ پھیلایا اور اسلام کا نام غلط استعمال کیا اور پھر آسانی سے نوجوان ان کی جال میں پھنستے چلے گئے پوری قوم کو کہتا ہوں کہ وہ ایسے لوگوں کے منفی پروپیگنڈے میں ہرگز نہ آئیں یہ لوگ اپنے مفادات کے حصول کے لئے غیروں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ان تمام چیزوں کو دیکھتے ہوئے میں نے رضا کارانہ طور پر خود کو پاک فوج کے حوالے کردیا۔

یاد رہے کہ 17 اپریل کو پاک فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے خود کو سیکیورٹی فورسز کے حوالے کردیا ہے۔ 2014 میں کالعدم تحریک طالبان میں انتشار کے بعد احسان اللہ احسان جماعت الاحرار کے ترجمان بن گئے تھے جو کہ اس وقت ٹی ٹی پی سے علیحدہ ہونے والا چھوٹا گروپ تھا۔اس وقت احسان اللہ احسان کا یہ دعویٰ تھا کہ 70 سے 80 فیصد ٹی ٹی پی کمانڈرز اور جنگجو جماعت الاحرار میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں جبکہ احسان اللہ احسان نے واہگہ بارڈر اور ملالہ یوسف زئی پر حملے ، گلگت بلتستان میں نو غیر ملکی سیاحوں کے قتل ، کرنل شجاع خانزادہ پر حملے سمیت دہشت گردی کے دس بڑے واقعات کی ذمہ داری قبول کی تھی اور رواں برس فروری میں لاہور کے مال روڈ پر ہونے والے خود کش دھماکے کی ذمہ داری بھی جماعت الاحرار نے قبول کی تھی جس میں 13 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

(اشفاق+خالد)