وفاقی دارالحکومت میں پابندی کے باوجود درختوں کی کٹائی کا سلسلہ نہ تھم سکا

نیو اسلام آباد ائیرپورٹ میٹرو بس منصوبے سمیت دیگر سرکاری و نجی تعمیراتی منصوبوں کیلئے سینکڑوں چھوٹے بڑے درخت کاٹ لئے گئے، کاٹے گئے درختوں کی کمی پوری کرنے کیلئے وعدوں کے باوجود کوئی قابل ذکر منصوبہ شروع نہ کیا جا سکا

اتوار 7 مئی 2017 20:12

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 07 مئی2017ء) وفاقی دارالحکومت میں پابندی کے باوجود درختوں کی کٹائی کا سلسلہ نہ تھم سکا، نیو اسلام آباد ائیرپورٹ میٹرو بس منصوبے سمیت دیگر سرکاری و نجی تعمیراتی منصوبوں کیلئے سینکڑوں چھوٹے بڑے درخت کاٹ لئے گئے، کاٹے گئے درختوں کی کمی پوری کرنے کیلئے وعدوں کے باوجود کوئی قابل ذکر منصوبہ شروع نہ کیا جا سکا، وفاقی ترقیاتی ادارے (سی ڈی ای) ضلعی انتظامیہ اور وزارت موسمیاتی تبدیلی نے معاملے پر انکھیں اور کان بند کر لئے، درختوں کی حالیہ کٹائی سے اسلام آباد میں گزشتہ چند سالوں میں نہ صرف گرمی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے بلکہ موسمیاتی تبدیلیاں بھی وقوع پذیر ہو رہی ہیں،ماہرین ماحولیات نے اسلام آباد اور مارگلہ کے پہاڑیوں پر درختوں کی تیزی سے کٹائی کو ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا باعث قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ تیزی سے درختوں کی کٹائی موسمی تبدیلیاں کا پیش خیمہ ثابت ہو رہی ہیں، اگر دنیا میں درختوں کے کٹائو کو نہ روکا تو درجہ حرارت میں اضافے اور گلیشیرز پگھلنے کا خطرہ ہے جس سے سمندر کی سطح میں اضافہ ہونے کی وجہ سے کئی ملک ڈوب جائیں گے۔

(جاری ہے)

باوثوق ذرائع کے مطابق 2015میں جڑواں شہروں میں میٹرو بس منصوبے کی تعمیر کیلئے بھی تقریباً 400 سے زائد چھوٹے بڑے درختوں کی کٹائی کی گئی اور تعمیراتی کام کے باعث اسلام آباد کی متعدد گرین بیلٹس اور راولپنڈی کے پارکس متاثر ہوئے تھے اس حوالے سے گزشتہ برس مارچ میں اس منصوبے کے آغاز کے وقت سپریم کورٹ نے سینیٹر مشاہد حسین سید کے منصوبے کی وجہ سے ماحولیات پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے تحفظات پر نوٹس لیا تھا جس پر انتظامیہ نے اس بات کی یقین دہانی کروائی تھی کہ میٹر وبس پراجیکٹ کی تعمیر کے دوران متاثر ہونے والے گرین بیلٹس اور پارکوں کی دوبارہ تعمیر کی جائے گی اور اس سلسلے میں کافی فنڈز موجود ہیں۔

تاہم منصوبے کی تکمیل کے بعد اسلام آباد میں تو میٹرو ٹریک کے ساتھ ساتھ نئے پودے لگائے گئے، گرین بیلٹس بھی بحال کی گئیں تاہم راولپنڈی میں نہ تو کوئی درخت لگائے گئے اور نہ ہی پارکس کی بحالی کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق کسی بھی ملک کے کل رقبے کا کم از کم ایک تہائی حصہ یا 25 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا انتہائی ضروری ہے تاہم سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں جنگلات کل اراضی کے محض 5 فیصد رقبے پر موجود ہیں جس میں قدرتی کے علاوہ زرعی اراضی پر موجود جنگلات کی مجموعی تعداد شامل ہے جبکہ اس کے برعکس عالمی ادارہ برائے فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن اور ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں صرف 2.1 فیصد اراضی پر جنگلات موجود ہیں اور پاکستان میں سالانہ جنگلات کی گروتھ ریٹ منفی 2 ہے۔

دوسری طرف پاکستان انسٹیٹیوٹ آف اکنامک ڈیولپمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں درختوں کی بے دریغ کٹائی سے سالانہ 27 ہزار ہیکٹر سے زائد اراضی بنجر ہو رہی ہے جو دنیا میں دوسرا نمبر ہے اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو آئندہ 30 سے 40 سال تک پاکستان مکمل طور پر بنجر ہو جائے گا۔(ار)

متعلقہ عنوان :