میمو گیٹ سکینڈل کی نسبت ڈان لیکس ایک بڑا سکینڈ ل ہے ،وزیراعظم نے آپس کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کا کہا ہے اگر وہ ایسا کہہ رہے ہیں تو پھر ضرور اس مسئلے کو حل کر لیا جائے گا،آئی ایس پی آر کے ٹوئٹ میں مسترد کا لفظ نہ بھی استعمال کیا جاتا تو بھی گزارا ہو سکتا تھا مگر لگتا ہے کہ ادھر سے بھی انہونی ہوئی ہے،حکومت کو چاہیے کہ ڈان لیکس پر کمیشن کی رپورٹ کر پبلک کردے ، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور کراچی آپریشن پر سول وعسکری قیادت ایک پیج پر ہیں ، پنجاب میںبھی آپریشن پر سول وعسکری قیادت ایک ساتھ ہیں 90سے 95فیصد معاملات پر حکومت اور فوج کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہیں

سابق سیکرٹری ڈیفنس لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کا نجی ٹی وی کو انٹرویو

اتوار 7 مئی 2017 21:10

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 07 مئی2017ء) سابق سیکرٹری ڈیفنس لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی نے کہا ہے کہ میمو گیٹ سکینڈل کی نسبت ڈان لیکس ایک بڑا سکینڈ ل ہے ،وزیراعظم نے آپس کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کا کہا ہے اگر وہ ایسا کہہ رہے ہیں تو پھر ضرور اس مسئلے کو حل کر لیا جائے گا،آئی ایس پی آر کے ٹوئٹ میں مسترد کا لفظ نہ بھی استعمال کیا جاتا تو بھی گزارا ہو سکتا تھا مگر لگتا ہے کہ ادھر سے بھی انہونی ہوئی ہے،حکومت کو چاہیے کہ ڈان لیکس پر کمیشن کی رپورٹ کر پبلک کردے ، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور کراچی آپریشن پر سول وعسکری قیادت ایک پیج پر ہیں ، پنجاب میںبھی آپریشن پر سول وعسکری قیادت ایک ساتھ ہیں 90سے 95فیصد معاملات پر حکومت اور فوج کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہیں ۔

(جاری ہے)

اتوار کو ایک نجی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں نعیم خالد لودھی نے کہاکہ میمو گیٹ سکینڈل اور ڈان لیکس سکینڈل کا موازنہ کیا جائے تو ڈان لیکس ایک بڑا سکینڈل ہے ، وزیراعظم نے کہا ہے کہ آپس کی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے گا ، اگر وزیراعظم ایسا کہہ رہے ہیں تو پھر ضرور اس مسئلے کو حل کر لیا جائے گا ، آئی ایس پی آر کے ٹوئٹ میں مسترد کا لفظ نہ بھی استعمال کیا جاتا تو بھی گزارا ہو سکتا تھا مگر لگتا ہے کہ ادھر سے بھی انہونی ہوئی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ مسترد کا لفظ ہوسکتا ہے اس لئے بھی استعمال کیا گیا ہوکہ رپورٹ میں کوئی ایسی انہونی ہوئی ہو جس وجہ سے انہیں یہ لفظ استعمال کرنا پڑا ،اتفاق رائے کی جو بات کی جا رہی تھی میرے خیال میں وہ اتفا ق رائے نہیں بلکہ مفاہمت تھا اورایک سائیڈ اس بات پر مان گئی کہ چلیں اس قانون کا نام ڈنا لیکس کے ذمہ داران میں شامل انٹیلی جنس کے ذرائع سے تمام کال ریکارڈ کمیشن کے سامنے رکھے گئے ہوں گے جس سے بات واضح ہوگئی کہ کون کون شامل ہیں ۔

خاتون کانام ذمہ داران کی فہرست سے نکالنے کے بعد باقی فہرست حتمی کر کے سب نے دستخط بھی کر دیے گئے ، اس قسم کی انویسٹی گیشن میں کمیشن صرف اپنی فائنڈنگ دے سکتے ہیں اور اپنی سفارشات دے سکتے ہیں ، کمیشن اس پر کوئی ایکشن نہیں لے سکتا ، ایکشن تو اس رپورٹ پر چیف ایگزیکٹو نے لینا تھا جب وہ رپورت ایگزیکٹو کے پاس آئی اس نے دیکھا ، اگر اس بات سے پھرنا تھا تو اس کا طریقہ کار یہ تھا کہ کچھ کرنے سے پہلے دوبارہ جن سے جو طے ہوا ہے ان سے بات کی جائے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس کو اور ٹھیک کر لیتے ہیں مگر ایسا نہیں کیا گیا ۔

رپورٹ کی کچھ سفارشات کے مطابق نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ۔ نعیم خالد لودھی نے کہا کہ کچھ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ وزیراعظم سیکرٹریٹ نے نوٹیفکیشن جاری نہیں کرنا تھا ایسا نہیں ہوتا، وزیراعظم کا پرنسپل سیکرٹری ہی نوٹیفکیشن جاری کرتا ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں نعیم خالد لودھی نے کہا کہ بعض اوقات وزیراعظم کی اجازت سے کچھ چیزیں ریکارڈ کی جاتی ہیں ، یہ ریکارڈ ان کے اپنے فائدے کیلئے ہوتا ہے ، ایف آئی اے اور ایم آئی بھی کالز ریکارڈ کر لیتی ہیں آج کل یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے ۔

سابق سیکرٹری ڈیفنس نے کہا کہ دھرنے کے پیچھے آرمی کا کوئی عمل دخل نہیں تھا ، آرمی پہلے سیاست میں عمل دخل دیتی تھی مگر اب ایسا نہیں ہے ، اب وہ صورتحال کو سمجھ کر پیچھے ہٹ گئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ ڈان لیکس پر کمیشن کی رپورٹ کر پبلک کردے ، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور کراچی آپریشن پر سول وعسکری قیادت ایک پیج پر ہیں ، پنجاب میں آپریشن پر بھی سول وعسکری ایک ساتھ ہیں میرے خیال میں تو 90سے 95فیصد معاملات پر حکومت اور فوج کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہیں ۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی نے کہا کہ سجن جندال سے وزیراعظم نوازشریف کی ملاقات اور پرویز مشرف سے ملاقات میں جگہ اور وقت کا بہت بڑا فرق ہے ، جنرل راحیل کے دور میں حکومت اور فوج کے درمیان پرویز مشرف کو لیکر اختلاف چلتا رہا ۔انہوں نے کہا کہ ہم اس بات کے قائل ہیں کہ جمہوری نظام میں ہی ہماری نجات ہے مگر فوج کے دل میں ایک تمنا ضرورہے کہ قابل اور شفاف لوگ آگئے آکر سیاست میں باگ ڈور سنبھالیں ۔

نعیم خالد لودھی نے کہا کہ جس طرح حکومت فوج میں صرف آرمی چیف لگاتی ہے اور باقی سسٹم کو نہیں چھیڑ سکتی دوسرے اداروں عدلیہ، پولیس اور سول بیورو کریسی میں بھی یہی طریقہ اپنا لے تب میرٹ کے اوپر لوگ آئیں گے اور ادارے مضبوط ہوں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم بھارت کے برابری اور عزت نفس کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں ۔ نعیم خالد لودھی نے کہا کہ حکومت اگر ووٹ لینے کے بعد یہ سمجھے کہ اب وہ مادر پدر آزاد ہیں تو ایسا کبھی ملڑی ہونے نہیں دے گی ، آئینی حدود آپ کے اوپر بھی اتنی ہیں جتنی ملٹری کے اوپر ہیں ، ملٹری اس معاشرے کا حصہ ہے جس طریقے سے عوام محسوس کرتی ہے اسی طریقے سے ملٹری بھی محسوس کرتی ہے اور ملٹری وہ بات کہہ دیتی ہے اس کا برا منایا جاتا ہے ، اگر جمہوریت ایسے ہی چلتی رہی تو سول وعسکری انٹینشنز ختم ہونے کے امکانات نہیںہیں ، اسی جمہوریت کو موڈیفائی کر کے بہتر بنا لیا جائے تو پھر حالات بہتر ہو سکتے ہیں ۔

(ن م)