پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس، نیب کو نندی پور پاور پراجیکٹ میں تاخیر کا معاملہ جلد از جلد نمٹانے اور آٹھ ہفتے بعد ابتدائی تحقیقات رپورٹ کمیٹی میں پیش کرنے کی ہدایت

نندی پور پاور پراجیکٹ میں تاخیر سے 113 ارب روپے نقصان کا سامنا کرنا پڑا، اس کی چھان بین 8 ہفتوں میں مکمل کر لی جائے گی، جس کے بعد ایگزیکٹو بورڈ اس کی فوجداری تحقیقات کی منظوری دے گا، نیب حکام پراجیکٹ میں تاخیر کی وجہ وزارت قانون و انصاف کے تاخیری حربے تھے، اسی وجہ تھی سے صدر مملکت اور وزیراعظم کو معاملہ میں مداخلت کر کے کابینہ کے سامنے پیش کرنا پڑا،سید نوید قمر 2014ء میں نقصانات کی شرح 19.1 فیصد تھی، اب 17.5 فیصد ہے اور 0.1 فیصد نقصانات 10ارب روپے بنتے ہیں، واپڈا حکام، اس کا مطلب ہے نقصانات 1700ارب روپے سے زائد ہیں، سید خورشید احمد شاہ

بدھ 10 مئی 2017 17:51

پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس، نیب کو نندی پور پاور پراجیکٹ میں تاخیر ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 10 مئی2017ء) پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی سابق وفاقی وزیر پانی و بجلی سید نوید قمر نے پبلک اکائونٹس کمیٹی کو بتایا ہے کہ نندی پور پاور پراجیکٹ میں تاخیر کی وجہ وزارت قانون و انصاف کے تاخیری حربے تھے، اسی وجہ تھی سے صدر مملکت اور وزیراعظم کو معاملہ میں مداخلت کر کے کابینہ کے سامنے پیش کرنا پڑا، نیب حکام نے بھی پی اے سی کو بتایا کہ نندی پور پاور پراجیکٹ میں تاخیر سے 113 ارب روپے نقصان کا سامنا کرنا پڑا، اس کی چھان بین 8 ہفتوں میں مکمل کر لی جائے گی، جس کے بعد ایگزیکٹو بورڈ اس کی فوجداری تحقیقات کی منظوری دے گا۔

پی اے سی نے معاملے کو جلد از جلد نمٹانے اور آٹھ ہفتوں کے بعد ابتدائی تحقیقات رپورٹ کمیٹی میں پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

(جاری ہے)

اجلاس بدھ کو پی اے سی کے چیئرمین سید خورشید احمد شاہ کی زیرصدارت ہوا جس میں کمیٹی کے ارکان شفقت محمود، عبدالرشید گوڈیل، سینیٹر ہدایت اللہ، سینیٹر تنویر خان، سینیٹر اعظم سواتی، ڈاکٹر عارف علوی، سینیٹر مشاہد حسین سید، سینیٹر شیری رحمٰن، سید نوید قمر، ارشد لغاری، شاہدہ اختر علی، میاں عبدالمنان، راجہ جاوید اخلاص، رانا افضال حسین، شیخ روحیل اصغر اور سردار عاشق حسین گوپانگ کے علاوہ متعلقہ سرکاری اداروں کے اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔

اجلاس میں وزارت پانی و بجلی کے ذیلی ادارے واپڈا کے 2014-15ء کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ ایک آڈٹ اعتراض کے جائزے کے دوران سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی وزارت پانی و بجلی کو ریکوریاں بڑھانے کے لئے ایک ماہ مہلت دے تا کہ گردشی قرضوں کی شرح میں کمی لائی جا سکے۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ بجلی کی پیداوار اور استعمال کے اعدادوشمار پی اے سی کے سامنے لائے جائیں۔

سیکرٹری پانی و بجلی نسیم کھوکھر نے بتایا کہ ریکوریوں کے حوالے سے کام کیا جا رہا ہے اور اس میں تیزی کی بھی گنجائش ہے۔ ریکوریوں اور نقصانات میں کمی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ ریکوریوں کی شرح 93 فیصد تک پہنچ گئی ہے تاہم مسئلہ ماضی کے واجبات کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیپرا میں بھی استعداد کار بڑھانے کے لئے اصلاحات لائی جا رہی ہیں۔ ہمیں وقت دیا جائے تا کہ ہم پوری تیاری کے ساتھ آ کر پی اے سی کو بریفنگ دے سکیں۔

پی اے سی کے ارکان کا کہنا تھا کہ بجلی کی پیداوار کو تیل کی بجائے دیگر ذرائع پر منتقل کرنا ہو گا۔ ارکان نے ماضی کے 246 ارب سے زائد کے واجب الوصول واجبات پر تشویش کا اظہار کیا۔ واپڈا کی طرف سے بتایا گیا کہ 2014ء میں نقصانات کی شرح 19.1 فیصد تھی۔ اب یہ 17.5 فیصد ہے اور 0.1 فیصد نقصانات 10ارب روپے بنتے ہیں۔ سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ نقصانات 1700ارب سے زائد ہیں۔

پی اے سی نے ان اعدادوشمار پر سخت تشویش کااظہار کیا۔ چیئرمین نے کہا کہ اگر ملک کے مجموعی جی ڈی پی سے اس تناسب کا موازنہ کیا جائے تو یہ حقائق کے برعکس نظر آتا ہے۔ سیکرٹری پانی و بجلی نے کہا کہ اعدادوشمار کے حوالے سے ہمیں مزید تحقیق کر کے پی اے سی میں آنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ لائن لاسز کی شرح کا تعین بھی نیپرا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکنیکل لاسز 7.5 فیصد ہیں۔

شیخ روحیل اصغر نے تجویز دی کہ لائن لاسز پر بجلی چوری اور دیگر امور کے حوالے سے وزارت پانی و بجلی کو وقت دیا جائے تا کہ اصل صورتحال سامنے آ سکے۔ پی اے سی کے چیئرمین سی خورشید احمد شاہ نے وزارت پانی و بجلی سے کہا کہ لائن لاسز سمیت دیگر امور پر دو ہفتوں پر پی اے سی کو جامع بریفنگ دی جائے۔ شفقت محمود نے تجویز دی کہ وزارت سے لاسز اور چوری کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں بھی بریفنگ لی جائے۔

چیئرمین واپڈا نے کہا کہ ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے شعبے پیپکو کے پاس چلے گئے ہیں۔ واپڈا صرف 19 ڈیموں کے ذریعے پن بجلی کی پیداوار کا ذمہ دار ہے۔ نیب کی طرف سے نندی پور پاور پراجیکٹ میں تاخیر اور امدادی منصوبے کی لاگت میں اضافہ کے حوالے سے پی اے سی کو بتایا گیا کہ 2008ء میں 320 ملین ڈالر لاگت سے اس منصوبے کا آغاز ہوا اور اس کا ٹھیکہ چینی کمپنی ڈانگ فانگ کو دیا گیا۔

اس منصوبے کی تاخیر کی وجہ سے کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ملک کا 113ارب روپے کا نقصان ہوا۔ اس وقت کی قانون و انصاف اور پارلیمانی امور کی وزارتوں سمیت دیگر ادارے اس حوالے سے غفلت کے مرتکب پائے گئے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ اس وقت پارلیمانی امور کے وزیر کون تھے۔ میاں عبدالمنان نے کہا کہ اس وقت وزیر قانون ڈاکٹر بابر اعوان تھے۔ نیب کی طرف سے بتایا گیا کہ کیمشن کی رپورٹ کی روشنی میں فوجداری تحقیقات حتمی مراحل میں ہیں۔

سید نوید قمر نے کہا کہ وہ اس وقت وزیر پانی و بجلی تھے۔ صدر مملکت، وزیراعظم اور وزارت پانی و بجلی کی سطح پر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی گئی مگر وزارت قانون کی جانب سے تاخیری حربے اختیار کئے جانے پر صدر مملکت کو مداخلت کرکے یہ مسئلہ کابینہ میں لے جانا پڑا۔ پی اے سی کے استفسار پر نیب حکام نے بتایا کہ اس کی چھان بین 8 ہفتوں میں مکمل کر لی جائے گی، جس کے بعد ایگزیکٹو بورڈ اس کی فوجداری تحقیقات کی منظوری دے گا۔

سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ دو ماہ چھان بین اور 4 ماہ فوجداری تحقیقات میں لگیں گے تو الیکشن سے پہلے یہ مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اعظم سواتی نے کہا کہ اس مسئلے کے لئے کوئی روڈ میپ بنایا جائے۔ سینیٹر مشاہد حسین سیدنے کہا کہ 3سال کی تاخیر کیوں کی گئی۔ نیب کی طرف سے بتایا گیا کہ حاضر سروس ججوں، سابق وزرائے اعظم ، اور وزراء کے بیانات ریکارڈ کرنے میں وقت لگا ہے جس کی وجہ سے تاخیر ہوئی، ہم نے ان شواہد کی بنیاد پر مقدمہ عدالت میں لے کر جانا ہے۔ پی اے سی نے ہدایت کی اس معاملے کو جلد از جلد نمٹایا جائے اور آٹھ ہفتوں کے بعد ابتدائی تحقیقات رپورٹ پی اے سی میں پیش کی جائے۔