وزارت داخلہ کا ایک لاکھ 56 ہزار سے زائد بلاک شناختی کارڈز کو عارضی طور پر بحال کرنے کا اعلان

سیاحوں پر گلگت بلتستان جانے کیلئے این او سی حاصل کرنے کی شرط ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، 33 ہزار کینسل کئے گئے پاسپورٹس کی بحالی کیلئے ایک بھی درخواست نہیں آئی، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا پریس کانفرنس سے خطاب

جمعرات 11 مئی 2017 19:26

وزارت داخلہ کا ایک لاکھ 56 ہزار سے زائد بلاک شناختی کارڈز کو عارضی طور ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 11 مئی2017ء) وزارت داخلہ نے ایک لاکھ 56 ہزار سے زائد بلاک شناختی کارڈز کو عارضی طور پر بحال کرنے اور آئندہ نوٹس دیئے بغیر شناختی کارڈز بلاک نہ کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ سابق دور میں ایک کھرب سے زائد کی رقم ملک سے باہر بھجوائے جانے کی تحقیقات کی جائیں گی، انسانی سمگلروں کو پکڑا جائے گا اور بیرون ملک بھاگ جانے والوں کو بھی واپس لایا جائے گا، سیاحوں پر گلگت بلتستان جانے کیلئے این او سی حاصل کرنے کی شرط ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، 33 ہزار کینسل کئے گئے پاسپورٹس کی بحالی کیلئے ایک بھی درخواست نہیں آئی۔

جمعرات کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ چند روز کے دوران وزارت داخلہ میں مختلف معاملات پر کئی اجلاس ہوئے ہیں، کل اور آج بھی دو طویل اجلاس ہوئے جن میں کئی ایشوز زیر غور آئے، 8، 10 دن بعد بھی ایک اور اہم ایشو بھی زیر غور آئے گا۔

(جاری ہے)

انہوں نے بتایا کہ وزارت داخلہ نے فیصلہ کیا ہے کہ گذشتہ ایک ڈیڑھ سال سے گلگت بلتستان جانے کیلئے این او سی کا اجراء جو ضروری قرار دیا گیا تھا اسے ختم کر دیا جائے گا، اس معاملہ پر تفصیلی مشاورت ہوئی ہے اور گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ سے بھی بات ہوئی ہے، سیاحوں کو گلگت بلتستان جانا چاہئے اس سلسلہ میں ہمیں سہولت فراہم کرنی چاہئے، اب سیاحوں کو این او سی کی ضرورت نہیں ہو گی، چند دن میں اس حوالہ سے نوٹیفکیشن جاری ہو جائے گا، ڈپلومیٹس، آئی این جی اوز کے اہلکاروں، ریسرچ ورکرز اور مختلف پراجیکٹس پر کام کرنے والے غیر ملکیوں کیلئے سیکورٹی کلیئرنس ضروری ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ قومی شناختی کارڈز کی تصدیق ایک مشکل کام تھا لیکن قومی مفاد میں اس کام کو کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کسی ملک کا پاسپورٹ، شناختی کارڈ غیر ملکی کے ہاتھ میں ا جائے اور لاکھوں کی تعداد میں ایسا ہو تو یہ ریاست کی غیر فعالیت کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 3 لاکھ 53 ہزار شناختی کارڈز بلاک کئے گئے، ان میں کئی پاکستانیوں کے کارڈ بھی بلاک کئے گئے، پارلیمان کی کمیٹی بھی اس معاملہ پر بنائی گئی اور سب سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی گئی، ایک لاکھ 74 ہزار کارڈ غیر ملکیوں کے پائے گئے جو کینسل کئے جا رہے ہیں ان کو اپیل کا حق دیا جا رہا ہے، 33 ہزار پاسپورٹس بھی کینسل کئے گئے جن میں سے ایک کیس میں بھی اپیل نہیں کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ایک لاکھ 74 ہزار کینسل کئے گئے غیر ملکیوں کے کارڈز میں ساڑھے تین ہزار کارڈز ایسے ہیں جنہوں نے ازخود اپنے کارڈز سرنڈر کئے، تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی، 10 ہزار ایسے کارڈز ہولڈر ہیں جنہوں نے خود کو افغان باشندہ کے طور پر رجسٹر کرایا ہوا تھا اور شناختی کارڈ بھی حاصل کر رکھا تھا۔ وزیر داخلہ نے بتایا کہ ایک لاکھ 56 ہزار 440 کارڈز عارضی طور پر بحال کئے جا رہے ہیں، اگر ان کارڈز کے حوالہ سے ضروری دستاویزات فراہم کی دی گئیں تو انہیں مستقل طور پر بحال کر دیا جائے گا، آج کے بعد کسی شخص کا کارڈ شک پر یا غلط دستاویزات پر بھی اس وقت تک بلاک نہیں کیا جائے گا جب تک اسے پہلے نوٹس نہ دے دیا جائے، آج سے بغیر نوٹس کے شناختی کارڈ بلاک کرنے پر مکمل پابندی عائد کی جا رہی ہے۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ چند ماہ قبل بطور وزیر داخلہ میں نے ایک معاملہ پر فیصلہ کیا، انسانی اعضاء کی پیوند کاری کے حوالہ سے یہاں انڈسٹری قائم ہے جس کا پتہ چلنے پر میں نے اس جرم کے خلاف کارروائی کیلئے ایف آئی اے کو متحرک کیا اور چند ہفتوںکے دوران اس پر کافی پیشرفت ہوئی ہے، چند ڈاکٹرز جو اس معاملہ میں ہیں اور جو سہولت کار اور فنانسرز ہیں ان کا کردار شرمناک اور انسانیت کی تضحیک ہے، اس میں مڈل مین یعنی ڈاکٹرز بہت پیسہ کمارہے ہیں، اس کیس کی تحقیقات کو آگے بڑھایا جائے گا۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ اشیاء خوردونوش اور خوراک میں ملاوٹ کا جرم بھی ایف آئی اے کے ماتحت نہیں، اسے ایف آئی اے کے شیڈول میں لایا جائے گا اور پہلے مرحلہ میں ایف آئی اے درآمدہ اشیاء خوردونوش کے حوالہ سے کارروائی کرے گی اور اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ دودھ، چاکلیٹ اور دیگر درآمدہ اشیاء جو زائد المیعاد اور نقصان ہوتی ہیں اور کہیں اور استعمال نہیں ہوتیں تو یہاں بھجوا دی جاتی ہیں، کے خلاف کارروائی کی جائے، امپورٹرز اور ڈسٹری بیوٹرز ملین ڈالر کی درآمدہ اشیا خوردونوش کے نقصان دہ ہونے کی صورت میں ذمہ دار ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ قانونی مراحل پورے کرنے کے بعد اس حوالہ سے کارروائی کی جائے گی۔ بعد ازاں روزمرہ اشیاء خوردونوش کے حوالہ سے بھی کارروائی کی جائے گی، صوبوں کی مشاورت اور منظوری سے اس سلسلہ میں اقدامات کئے جائیں گے کیونکہ عوام کی صحت کا معاملہ ہے جس سے حکومت لاتعلق نہیں رہ سکتی۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ موبائل فون ٹاورز کے انسانی صحت کیلئے مضر ہونے کی شکایات بھی موصول ہوئی ہیں، اس پر بھی کافی کام کیا گیا ہے اور کمیٹی نے اپنی سفارشات بھی دی ہیں، سکولوں، گھروں اور گنجان علاقوں میں یہ ٹاورز لگائے گئے ہیں، عوام کو ان کے نقصان دہ اثرات سے بچانا ہے، ہم موبائل کمپنیوں کے کام میں بلاجواز رکاوٹ نہیں ڈالیں گے لیکن عوام کی صحت کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے جو وہ پوری کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس سے قبل 9 کروڑ غیر تصدیق شدہ سموں کی تصدیق کا عمل بھی مکمل کیا گیا جس سے کسی کا کاروبار خراب نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ماحولیات اور طبی ماہرین پی ٹی اے حکام اور تمام متعلقہ فریقین کو بلا کر ایک سیمینار کرایا جائے گا اور اس معاملہ کو بھی ایف اے اے کے شیڈول میں لایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ خانانی اینڈ کالیا کا کیس بہت بڑا کیس ہے، 2007ء میں حکومت نے اس پر کارروائی شروع کی لیکن چوروں سے مل کر یہ کارروائی ختم کر دی گئی اور ملزمان بھی بچ گئے، امریکہ میں الطاف کو سزا ہوئی تو میں نے اس معاملہ کا نوٹس لیا اور اس کیس پر کارروائی شروع کی تو پتہ چلا کہ تمام ریکارڈ اور ثبوت ضائع کئے جا چکے، 2005ء سے 2008ء تک ایک سو ارب روپے ملک سے باہر لے جائے گئے، اس کے علاوہ بھی پیسے بیرون ملک بھجوائے گئے، ہم نے تحقیقات کیلئے بیرونی اداروں کو بھی خطوط لکھے، ایف آئی اے نے 14 لاکھ ٹرانزیکشنز کا ثبوت نکالا ہے، اس کے علاوہ بھی کئی ثبوت ملے ہیں، بہت بڑی پیشرفت ہوئی ہے اور مزید پیشرفت بھی ہو گی۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ پٹرولیم لیوی کی مد میں اڑھائی ارب روپے قومی خزانہ میں ایف آئی اے نے وصول کرکے جمع کرائے ہیں، پٹرولیم کمپنیوں سے مزید اربوں روپے وصول کئے جائیں گے، پٹرولیم نکالنے والی کمپنیوں کے ذمہ اربوں ڈالر کی واجب الادا رقم وصول کی جائے گی، ایف آئی اے کو اس حوالہ سے کارروائی کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ ایران اور افغانستان کے ذریعے انسانی سمگلنگ کی جاتی ہے، تاریخ میں اتنے لوگ نہیں پکڑے گئے جتنے ہم نے پکڑے، پاکستان سے باہر سے بھی لوگوں کو پکڑا گیا، ریڈ بک کو متحرک کیا گیا، گوجرانوالہ ڈویژن میں انسانی سمگلروں اور ایجنٹوں کی بہت زیادہ تعداد ہے، ایک ایک کو پکڑا جائے گا، ان کے شناختی کارڈز اور پاسپورٹس بھی کینسل کئے جا رہے ہیں اور مختلف ممالک سے ان کی واپسی کیلئے بھی رابطے کئے جا رہے ہیں، انسانی سمگلنگ میں ہمارا نام آنا پاکستان کی بے حرمتی اور لوگوں کے استحصال کے مترادف ہے، اس سلسلہ کو روکا جائے گا۔

وزیر داخلہ نے بتایا کہ الطاف کے ریڈ وارنٹ جو ازسرنو بھیجنے تھے اس پر کام ہو رہا ہے، ہائی پروفائل سینئر ماہرین اس کام پر لگائے گئے ہیں، کچھ ڈاکومنٹس صوبوں سے لینے ہیں جلد ریڈ وارنٹ جاری ہو جائیں گے۔