لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے موجودہ حکومت نے کوئی اقدام نہیں اٹھایا ، آمنہ مسعود جنجوعہ

ملک بھر میں ہزاروں افراد لاپتہ ہو چکے ہیں اب تک 2400 کیسز میں650 کیسز حل کئے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے ، پریس کانفرنس سے خطاب

جمعرات 11 مئی 2017 20:43

کو ئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 11 مئی2017ء) ڈیفنس آف ہیومین ڑائتس کی چیئر پرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے نے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے موجودہ حکومت نے کوئی اقدام نہیں اٹھایا ملک بھر میں ہزاروں افراد لاپتہ ہو چکے ہیں اب تک 2400 کیسز میں650 کیسز حل کئے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے ان خیالات کا اظہا رانہوں نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے کہی انہوں نے کہا ہے کہ راولپنڈی کے مشہور تعلیم دان اور بزنس مین مسعود جنجوعہ کی بیوی ہوں جنہیں12 سال پہلی30 جولائی 2005 کو اپنے دوست فیصل فراز کے ہمراہ جبری گمشدہ کیا گیا تھا اس قیامت سے پہلے میں گھر یلوخاتون تھی جس کا بچوں کی تعلیم وتربیت اور شوہر کی خدمت کر نا تھا جب یہ واقعہ پیش آیا تو اور میں اپنے شوہر کی بازیابی کیلئے جدوجہد کا آغاز کیا تو یہ جان کر میرے آنکھیں کھلی رہ گئیں کہ وطن عزیز میں قدم پر مائیں بہنیں اور بیٹیاں اپنے لاپتہ پیاروں کی تلاش میں ازیت ناک زندگی بسر کر رہی ہیں میں بھی اپنی شوہر اور اپنے بچوں کو انسانی حقوق اور انصاف دلانے کی خاطر ایک عزم اور جذبے کے ساتھ کھڑی ہوئی اور پہلی مرتبہ گھر سے نکلی انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے مجھے توفیق دی اور میں فیصلہ کیا کہ میں اپنی جیسی مائوں ، بہنوں اور بیٹیوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھائوں گی چا ہئے ان کا تعلق پنجاب ، سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا اورگلگت بلتستان سے ہو کسی پیارے کی جبری گمشدگی کا دکھ کیا ہی میں اچھی طرح جانتی ہوں یہ دکھ ہر لمحہ جینے مرنے کا نام ہے چاہئے حالات جو بھی ہوں یہ دکھ مرتے دم تک جدوجہد کر تے رہنے کا نام ہے ومجبور عوام آٹا، چینی اور چال کے حصول کیلئے جانیں دے رہی ہے تو کیا ہم اپنے دکے ٹکروں ، اپنے سر کے تاج اور پیاروں کیلئے جانیں نہیں دے سکتی اگر آٹا، دال کیلئے سڑکوں پر احتجاج کیا جا سکتا ہے تو اپنے لاپتہ پیاروں کیلئے ہم اپنی جان بھی دے سکتے ہیں یہی جذبہ جو مجھے کسی پل چین نہیں لینے دیتا اور میں ملک کے گوشے گوشے میں جا کر مظلوم لواحقین کے ساتھ جدوجہد اوراظہا ریکجہتی ہر قیمت پر جاری رکھتی ہوں اور جہاں تک ممکن ہو ان کیلئے قانونی امداد کرنے کی کوشش کر تی ہوں صرف یہی نہیں ایشیا کے بیشتر ممالک جبری گمشدگی جیسی بھیانک بیماری سے دو چار ہیں ان کے ساتھ مل کر بھی بین الاقوامی سطح پر اپنی آواز بلند کر رہی ہوں۔

(جاری ہے)

یہاں آنے کا ایک ہم مقصد دہشتگردی میں شہید ہونیوالے وکلاء اور شہریوں کی شہادت پر افسوس فاتحہ خوانی اور ان کے غم میں شامل ہو نا بھی دیر سے آئی ہوں مگر ھقیقت یہ ہے کہ میں کل بھی، آج بھی اور آئندہ ہمیشہ کوئٹہ اور بلوچستان کے مظلوم عوام کے ساتھ کھڑی ہوں اور ان کو انصاف تک اپنی جدوجہد جاری رکھوں گی آخر میں اپنی تنظیم کے نمائندوں حافظ نادر حمید کاکڑ اور ظفر جان بلوچ ودیگر کی بہت شکرگزار ہوں جن کی کا وشوں سے بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں سے بھی ڈی ایچ آر کی درخواستیں موصول ہو رہی ہیں اور ان تک قانونی پہنچ رہی ہے ڈی ایچ آر کی جدوجہد کی وجہ سے سینکڑوں خاندانوں کا ملاپ ہو ا اور ہزاروں پیارے بازیاب ہو چکے ہیں بلوچستان کے مطلوم عوام کی طرف س مجھ پر جو محبت، شفقت اور اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے اس کے لئے تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔

متعلقہ عنوان :