مشال قتل کیس ،ْ کسی ثبوت کے بغیر اس طرح کے اقدامات جائز نہیں ،ْمقدمہ فوجی عدالت میں چلنا چاہیے ،ْاراکین

پورے ایوان کی کمیٹی میں مسئلہ زیر غور لایا جائے ،ْقانونی اور انسانی معاملے پر توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال نہیں ہونا چاہیے ،ْمعاشرے میں عدم برداشت کی بڑھتی ہوئی کیفیت ہمارے پورے معاشرے اور ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے ،ْہمارا معاشرہ مذہبی انتہا پسندی کی طرف جارہا ہے ،ْتدارک نہ کیا گیا تو معاشرے میں رہنا مشکل ہو جائے گا ،ْملک میں عدم برداشت کے رویے کو ختم کرنا ہوگا ،ْہمیں اپنی صفوں کو سیدھا رکھنا ہوگا ،ْ مذہب کے غلط استعمال کو روکنا ہوگا ،ْمقدمہ فوجی عدالت میں چلنا چاہیے ،ْ اعتزاز احسن ،ْ فرحت اللہ بابر ،ْ اعظم سواتی ،ْ شیری رحمن ،ْ روبینہ خالد ،ْ عطاء الرحمن ،ْ میرحاصل خان بزنجو ،ْ نہال ہاشمی ،ْ میر کبیر خان ،ْعثما ن کاکڑ ،ْ شاہی سید

جمعرات 11 مئی 2017 22:48

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 مئی2017ء) اراکین سینٹ نے مشال خان کے قتل کو انتہائی تشویش معاملہ قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ کسی ثبوت کے بغیر اس طرح کے اقدامات جائز نہیں ،ْ پورے ایوان کی کمیٹی میں مسئلہ زیر غور لایا جائے ،ْقانونی اور انسانی معاملے پر توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال نہیں ہونا چاہیے ،ْمعاشرے میں عدم برداشت کی بڑھتی ہوئی کیفیت ہمارے پورے معاشرے اور ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے ،ْہمارا معاشرہ مذہبی انتہا پسندی کی طرف جارہا ہے ،ْتدارک نہ کیا گیا تو معاشرے میں رہنا مشکل ہو جائے گا ،ْملک میں عدم برداشت کے رویے کو ختم کرنا ہوگا ،ْہمیں اپنی صفوں کو سیدھا رکھنا ہوگا ،ْ مذہب کے غلط استعمال کو روکنا ہوگا ،ْمقدمہ فوجی عدالت میں چلنا چاہیے جبکہ وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے کہا ہے کہ مردان میں مشال خان کے قتل کے واقعہ نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا‘ سپریم کورٹ نے معاملے کا نوٹس لے رکھا ہے‘ ایسے واقعات معاشرے کیلئے بھی بڑا المیہ ہیں‘ علماء اور سیاسی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

(جاری ہے)

جمعرات کو سینٹ میں قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن ‘ سلیم مانڈوی والا‘ اسلام الدین شیخ‘ گیان چند اور دیگر ارکان کی تحریک پر بحث میں حصہ میں لیا پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں مشال خان کو توہین رسالت کے الزام میں حملہ کرکے قتل کردیا گیا ،ْابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ مشال خان روشن خیال ضرور تھا تاہم مذہب کی توہین کا کوئی پہلو اس کی زندگی میں نہیں تھا۔

اسی طرح کے واقعات سیالکوٹ اور چترال میں بھی ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی ثبوت کے بغیر اس طرح کے اقدامات درست نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک قانونی اور انسانی معاملے پر توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ مخصوص ذہنیت کو پارلیمنٹ کے ذریعے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ خیبر پختونخوا کی پولیس نے قانونی تقاضوں کو پورا کیا ہے ،ْ ماضی میں بھی مشال خان جیسے بہت سے افراد کو قتل کیاگیا۔

پارلیمنٹ کو اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لئے کردار کرنا چاہیے۔ سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ معاشرے میں عدم برداشت کی بڑھتی ہوئی کیفیت ہمارے پورے معاشرے اور ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ مشال خان کا قتل ہمارے لئے ایک موقع ہے کہ ان واقعات کی روک تھام کریں۔ ورنہ ایسے واقعات بڑھتے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہی انتہا پسندی ہے اس کی روک تھام کے لئے نیشنل ایکشن پلان موجود ہے۔

سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ مشال خان کے اہل خانہ کرب کی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس طرح کے واقعات کا نوٹس لیا جائے یہ سوچنے کا وقت ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں میں اس طرح کے واقعات ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پورے ایوان کی کمیٹی میں اس مسئلہ کو زیر غور لایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعہ کے بعد مردان میں ایک بڑی ریلی نکالی گئی جس میں کہا گیا کہ مشال کا قتل ایک اعزاز ہے۔

مولانا عطاء الرحمن نے کہا کہ جس بے دردی سے مشال خان کو قتل کیا گیا وہ قابل افسوس ہے۔ ہمیں مشال خان کے خاندان سے ہمدردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لگتا ہے کہ منصوبہ بندی بندی کے تحت توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ کہیں منصوبہ بندی کے تحت ہی تو ایسے واقعات نہیں ہو رہے‘ انہوں نے کہا کہ چترال میں احتجاج پر 19 افراد کے خلاف دہشتگردی کا پرچہ کاٹ دیا گیا۔

وفاقی وزیر سینیٹر حاصل بزنجو نے کہا کہ مشال خان کو قتل کرنے والے کوئی اور نہیں اس کی یونیورسٹی کے ساتھی تھے۔ ہمارا معاشرہ مذہبی انتہا پسندی کی طرف جارہا ہے۔ اس کا تدارک نہ کیا گیا تو اس معاشرے میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔ سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ مشال پاکستان کا بیٹا تھا۔ توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے۔ سینیٹر میر کبیر خان نے کہا کہ ملک میں عدم برداشت کے رویے کو ختم کرنا ہوگا۔

مشال خان کے قتل کے واقعہ سمیت دیگر واقعات کے اسباب پر غور کے لئے ایوان بالا کے پورے ایوان کی کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ پاکستان کے لوگ اسلام سے محبت کرتے ہیں لیکن بعض لوگ ان کی اس محبت کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مشال نے یونیورسٹی میں کرپشن کی نشاندہی کی تھی اور کرپشن پر تنقید کرتا تھا۔

ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے سنجیدہ اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں انتہا پسندی کے خلاف متحد ہونا پڑے گا۔ مشال خان کے قتل کے مقدمے کی تیزی سے سماعت ہونی چاہیے۔ سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ علمائے حق کو اس طرح کے واقعات کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا چاہیے۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ توہین رسالت کا قانون تبدیل کیا جائے بلکہ ہم کہہ رہے ہیں کہ اس پر عمل کرایا جائے۔

مشال خان کو کسی جج نے سزا نہیں دی۔ ہمیں مل کر ذمہ داروں کا تعین کرنا ہوگا اور اس طرح کے واقعات روکنا ہونگے۔ سینیٹر چوہدری تنویر خان نے کہا کہ ہر طبقے میں جذباتی لوگ موجود ہیں‘ ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔ آج پوری قوم دہشتگردی کے خاتمے کے لئے متحد ہے۔ سینٹ صوبائی حکومت سے اس واقعہ کے حوالے سے رپورٹ طلب کرے۔ سینیٹر حافظ حمد اللہ نے کہا کہ زمین پر فساد اور انتشار پھیلانے کی مذہب میں اجازت نہیں ہے۔

اس کے لئے سخت سزائیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ توہین رسالت کا غلط الزام لگانے والوں کے لئے بھی اسی طرح کی سخت سزا ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم قانون پر عملدرآمد کی بات کرتے ہیں ،ْقانون پر عملدرآمد ہوگا تو ایسے واقعات نہیں ہونگے۔انہوں نے کہا کہ مشال کو ظلم کے ساتھ قتل کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جھوٹا الزام لگانے والے کو بھی سزا ہونی چاہیے۔

سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ کسی الزام کی تحقیق کے بغیر نتائج اخذ کرکے ہجوم کو مشتعل کرنا فساد فی الارض ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی صفوں کو سیدھا رکھنا ہوگا۔ اور مذہب کے غلط استعمال کو روکنا ہوگا۔سردار اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ دکھ کی بات یہ ہے کہ عدم تشدد کے حامی شخص کے نام پر بننے والی یونیورسٹی میں ایسا پرتشدد واقعہ ہوا۔ حتیٰ کہ مشال خان کو قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہ ملی۔

انہوں نے کہا کہ قانون کی عملداری نہ ہونے کے باعث حالات خراب ہو رہے ہیں۔ سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ مشال خان کی فیس بک کسی اور نے استعمال کی۔ یونیورسٹیوں میں اساتذہ سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہو رہے ہیں۔ سینیٹر اورنگزیب نے کہا کہ اس کی تحقیق ہونی چاہیے کہ پولیس کی موجودگی میں کیسے ایک شخص کو انتہائی بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو سزا دینا ہجوم کا نہیں عدالت کا کام ہے۔

حکومت اس معاملے میں فوری انصاف کرے۔ سینیٹر بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ علامہ اقبال نے کہا کہ جو تعلیم آپ کو اللہ سے دور کردے ایسی تعلیم بھی فتنہ ہے۔ یہاں مذہب کے نام پر لوگوں کی گردنیں کاٹی جارہی ہیں۔ سینیٹر سلیم ضیاء نے کہا کہ اس واقعہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے کہا ملزموں کو سخت سزا ملنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے بھی ایسے واقعات بڑھ رہے ہیں۔

قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ وہاں پولیس اور سیلفی لینے والے بھی تھے لیکن اس کو بچانے والا کوئی نہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ آج ہجوم کسی کو اختلاف کا حق اور صفائی کا موقع بھی نہیں دینا چاہتا۔ ہم کسی کو شک کا فائدہ ہی نہیں دینا چاہتے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مقدمہ فوجی عدالت میں چلنا چاہیے۔ انہوں نے بھی تجویز کیا کہ اس معاملے پر پورے ایوان کی کمیٹی کا اجلاس بلائیں اور اس میں وکلاء‘ علماء اور تمام شعبہ زندگی کے لوگوں کو بلا کر بحث کرائی جائے۔

بحث سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ مشال خان کا واقعہ اندوہناک ہے جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ ہم اسلام کا نام لیتے ہیں اور ہمارے قول و فعل میں تضاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعہ کے بعد خیبر پختون خوا حکومت نے فوری ایکشن لیا۔ سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے پر ایکشن لے رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کے جان و مال کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے علماء اور سیاسی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات معاشرے کے لئے بھی بڑا المیہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جیسے ہی اس حوالے سے حقائق سامنے آتے ہیں ایوان کے سامنے پیش کردیئے جائیں گے۔