مولانا غفور حیدری پرحملہ قابل مذمت ہے ،ْ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سینیٹرز کو سیکیورٹی فراہم کی جانی چاہیے ،ْاراکین سینٹ

‘ تمام سیاسی جماعتوں کو دہشت گردی کا خاتمہ اور خارجہ پالیسی اپنی ترجیح بنانی چاہیے‘ نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل کیا جائے‘ عوام اور سیاسی قیادت کی حفاظت کو یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے ،ْ دہشت گردوں کا صفایا کیا جائے ،ْ آپس کی رسہ کشی کی بجائے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جامع منصوبہ بنایا جائے ،ْ میر حاصل بزنجو ،ْ میر کبیر ،ْ جہانزیب جمالدینی ،ْ کلثوم پروین ،ْسسی پلیجو ،ْ حافظ حمد اللہ کا دیگر کا اظہار خیال ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے ڈائریکٹر سٹاف افتخار مغل مستونگ بم دھماکے میں شہید

جمعہ 12 مئی 2017 18:37

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 مئی2017ء) اراکین سینٹ نے بلوچستان کے شہر مستونگ میں ڈپٹی چیئر مین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری کے قافلے پر دہشتگردانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سینیٹرز کو سیکیورٹی فراہم کی جانی چاہیے‘ تمام سیاسی جماعتوں کو دہشت گردی کا خاتمہ اور خارجہ پالیسی اپنی ترجیح بنانی چاہیے‘ نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل کیا جائے‘ عوام اور سیاسی قیادت کی حفاظت کو یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے ،ْ دہشت گردوں کا صفایا کیا جائے ،ْ آپس کی رسہ کشی کی بجائے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جامع منصوبہ بنایا جائے۔

جمعہ کو اجلاس کے دور ان چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے بتایا کہ نماز جمعہ کے وقفے کے دوران معلوم ہوا کہ ڈپٹی چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری مستونگ جلسے میں گئے تھے۔

(جاری ہے)

مسجد سے نکل رہے تھے ایک خودکش حملہ آور نے ان پر حملہ کیا ،ْ اب تک کی ا طلاعات کے مطابق متعدد افراد شہید اور ڈپٹی چیئرمین زخمی ہیں۔ قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے ساتھ اس معاملہ پر مشاورت کی ہے ،ْسیکرٹری داخلہ بلوچستان سے بھی دوبار بات ہوئی۔

چیف سیکرٹری سے بھی بات ہوئی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان ملک سے باہر ہیں‘ کور کمانڈر کوئٹہ اور کمانڈر سدرن کمانڈ سے بھی بات ہوئی ہے۔ ان سے درخواست کی گئی ہے کہ مولانا حیدری کو کوئٹہ سی ایم ایچ لایا جائے۔ انہوںنے کہاکہ ابھی اطلاع ملی ہے کہ ان کے زخم زیادہ شدید نہیں ہیں ،ْچیئر مین سینٹ رضا ربانی نے کہا کہ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی پورا ایوان مذمت کرتا ہے، اس طرح کے بزدلانہ حملوں سے پارلیمان اور پاکستان کے عوام کو زیر نہیں کیا جاسکتا۔

حکام سے میں رابطے میں ہوں، مولانا حیدری کے سٹاف سے بھی رابطہ کیا جارہا ہے۔ سینیٹر حاصل بزنجو نے کہا کہ مستونگ کے علاقے میں پہلے بھی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے واقعات ہو چکے ہیں۔ ہم اس واقعہ کی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے بھی جتنے بھی خودکش دھماکے ہوئے ہیں وہ اسی علاقے میں ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس علاقے میں انتہا پسندوں کا خاتمہ کرنا ہوگا ،ْسینیٹر میر کبیر نے کہا کہ قلات اور مستونگ دو الگ الگ اضلاع ہیں اس علاقے میں پہلے بھی دھماکے ہو چکے ہیں تاہم سیکیورٹی کا کوئی مناسب انتظام نہیں ہوتا ،ْدھماکے کی مذمت کرتے ہیں۔

سوگوار خاندانوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں ،ْبلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سینیٹرز کو سیکیورٹی فراہم کی جانی چاہیے۔ سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ بلوچستان میں سیکیورٹی کی صورتحال تشویش کا باعث ہے ،ْ تمام سیاسی جماعتوں کو دہشت گردی کے خاتمے اور خارجہ پالیسی کو اپنی ترجیح بنانا چاہیے اور دہشت گردوں کا صفایا کیا جائے۔ آپس کی رسہ کشی کی بجائے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے جامع منصوبہ بنایا جائے۔

سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ مستونگ میں دہشت گردی کا واقعہ قابل مذمت ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردی ابھی ختم نہیں ہوئی اس مسئلے کی طرف سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے ،ْ انہوں نے مطالبہ کیا کہ بلوچستان کے مسئلے پر پورے ایوان کی کمیٹی کا اجلاس بلا کر غور کیا جائے ،ْ سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ بلوچستان میں ارکان سینیٹ کی سیکیورٹی بڑھانے کی ضرورت ہے ،ْصوبے میں دہشت گردی کے واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔

وزارت داخلہ اور سیکیورٹی ادارے اس کا نوٹس لیں ،ْسینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے اور امن کے قیام کے معاملے پر تمام سیاسی جماعتیں اور 20 کروڑ عوام متفق ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عمل کیا جائے۔ سینیٹر سعید الحسن مندوخیل نے کہا کہ مستونگ میں دہشتگردی کا واقعہ قابل مذمت ہے۔ اس طرح کے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔

ہمیں اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنا ہوگی، تبھی صورتحال ٹھیک ہوگی۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ دہشتگردی کے خاتمے کے لئے ہمیں اس کی بنیاد کو ختم کرنا ہوگا۔ مستونگ کا واقعہ ایک مرتبہ پھر ہماری پالیسیوں پر نظرثانی کی طرف توجہ دلا رہا ہے۔ اسی صورت میں دہشتگردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ سینیٹر حافظ حمد اللہ نے کہا کہ مستونگ میں ہونے والے بم دھماکے میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے 25 کارکن شہید اور 40 زخمی ہوئے ہیں۔

مولانا عبدالغفور حیدری زخمی لیکن محفوظ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے ڈائریکٹر سٹاف افتخار مغل کی شہادت پر ان کے اہل خانہ کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ ایسی شخصیات کو نشانہ بنایا جارہا ہے جو ریاست کی علامت ہیں۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اگر محفوظ نہیں ہیں تو پھر کون محفوظ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف پر قاتلانہ حملے کے ملزم پکڑے بھی گئے اور انہیں سزا بھی دی گئی لیکن اسفندیار ولی ‘ بے نظیر بھٹو‘ مولانا فضل الرحمن اور مولانا محمد خان شیرانی پر حملہ کرنے والے نہ تو پکڑے جاسکے ہیں اور نہ ہی سزا ملی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عوام اور سیاسی قیادت کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ مستونگ میں ہونے والے بزدلانہ اور سفاکانہ حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ یہ سینٹ اور پاکستان پر حملہ ہے۔ دہشتگردی کا خاتمہ موجودہ حکومت کا مشن ہے۔ سینیٹر نگہت مرزا نے کہا کہ مولانا عبدالغفور حیدری پر حملے کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں ،ْدہشتگردی کا خاتمے کئے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا۔

سینیٹر احمد حسن نے کہا کہ یہ انتہائی افسوسناک واقعہ ہے جس پر ہمارے دل رنجیدہ اور غمزدہ ہیں ،ْہم کب تک اس طرح کے واقعات کا شکار ہوتے رہیں گے۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ آج کے واقعہ سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ دہشتگردی کی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ،ْہمیں مزید جذبے کے ساتھ یہ جنگ لڑنا ہوگی ،ْیہ وفاق پر حملہ ہے لیکن دہشتگردوں کی اس طرح کی بزدلانہ کارروائیاں ہمارے جذبے کو کمزور نہیں کر سکتیں۔

سینیٹر دائود اچکزئی نے کہا کہ بلوچستان میں دہشتگردی کے اس واقعہ نے پوری قوم کو سوگوار کردیا ہے ،ْانہوں نے کہا کہ ہم کس طرف جارہے ہیں ،ْدہشتگردی کے خاتمے کے لئے ہمیں کوئی باقاعدہ حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی ،ْ بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات پے درپے ہو رہے ہیں۔ ان کی روک تھام کے لئے عوام سیکیورٹی اداروں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ سینیٹر نثار محمد خان نے کہا کہ دہشتگردی کے اس واقعہ نے ہمارے دل دہلا دیئے ہیں ،ْافتخار مغل ہمارے ساتھی تھے۔

ان کے اہل خانہ کے غم میں ہم برابر کے شریک ہیں ،ْدہشتگردی کے اس طرح کے واقعات سے ہمارا عزم کبھی کمزور نہیں ہوگا ،ْ سینیٹر مشاہد اللہ نے کہا کہ پاکستان طویل عرصے سے دہشتگردی کا شکار ہے ،ْمعصوم لوگ چونکہ آسان ہدف ہوتے ہیں اس لئے دہشتگرد انہیں نشانہ بناتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں جو غلط فیصلے کئے گئے انہی کے نتائج آج ہم بھگت رہے ہیں۔ دہشتگردی کے واقعات اگرچہ کم ہوگئے ہیں تاہم مکمل ختم نہیں ہوئے ،ْدہشتگردی کے خاتمے سے ہی پاکستان آگے بڑھے گا۔ بعد ازاں سینیٹ کا اجلاس پیر کی سہ پہر اڑھائی بجے تک ملتوی کردیا گیا۔