ایوان بالا کا اجلاس : ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری پر ہونے والے خود کش حملے کی شدید مذمت ، واقعے میں شہید، زخمی ہونے والے افراد کیلئے فاتحہ خوانی اور صحت یابی کیلئے دعا کرائی گئی

بلوچستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے مولانا عبدالغفور حیدری پر حملہ پاکستان پر حملے کے مترادف ہے، سیاستدانون کو ایک دوسرے کی ٹآنگیں کھینچنے کی بجائے بلوچستان اور ملک کو بچانے کے اقدامات کرنے چاہئیں، چیئرمین سینٹ دہشت گردی واقعات سے پارلیمان یا پاکستان کی عوام کو زیر کر سکیں گے تو یہ دہشتگردوں کی خام خیالی ہے ، ڈپٹی چیئرمین سینٹ کی صحت زیادہ خراب ہوئی تو انہیں سی ایم ایچ کوئٹہ منتقل کیا جائیگا ، رضا ربانی مستونگ کا علاقہ ہمیشہ سے انتہا پسندوں کا گڑھ رہا ہے، سب کو معلو م ہے ، اہل تشیع پر بھی حملے ہوچکے ہیں مگر معلوم نہیں اس علاقے کو کیوں نظر انداز کیاجارہا ہے ، میر حاصل بزنجو بلوچستان میں سب سے زیادہ خود کش دھماکے مستونگ میں ہوتے ہیں، بلوچ بیلٹ میں پتہ نہیں چلتا کب حملہ ہو جائے ، مولانا فضل الرحمن کو بھی بلٹ پروف گاڑی نہ ملتی تو بچنا مشکل ہوجاتا ، سینیٹر میر کبیر واقعہ بہت افسوسناک ہے اور حکومت اس کی مذمت کرتی، وزیر پارلیمانی امو ر شیخ آفتاب بلوچستان کا کوئی شخص خواہ وہ سیاستدان ہو یا آفیسر خود کش حملوں سے محفوط نہیں ہے، فورسز اور سول ادارے دہشتگردی پر قابو پانے میں کیوں ناکام ہیں ، سینیٹر کلثوم پروین اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رپورٹ پر عملدرآمد کیا جاتا اور اس کو وزارت داخلہ کی جانب سے مسترد نہ کیا جاتا تو حالات بہتر ہو جاتے، سینیٹر عثمان کاکڑ و دیگر کا ایوان بالا میں مستونگ واقعے کی شدید مذمت

جمعہ 12 مئی 2017 22:13

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 12 مئی2017ء) ایوان بالا میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری پر ہونے والے خود کش حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے واقعے میں شہید اور زخمی ہونے والے افراد کیلئے فاتحہ خوانی اور صحت یابی کی دعا کی ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے مولانا عبدالغفور حیدری پر حملہ پاکستان پر حملے کے مترادف ہے، سیاستدانون کو ایک دوسرے کی ٹآنگیں کھینچنے کی بجائے بلوچستان اور ملک کو بچانے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔

نماز جمعہ کے بعد سینیٹ اجلاس کے آغاز کے موقع پر چیئرمین سینیٹ نے کہ اکہ ڈپٹی چیئرمین مستونگ میں جلسے کے بعد ایک خود کش حملہ آور نے اس پر حملہ کیا ہے اور میری اطلاعات کے مطابق آٹھ سے دس افراد شہید ہوئے ہیں اور ڈپٹی چیئرمین صاہب کو بھی چوٹیں آئی ہیں انہوں نے کہا کہ کور کمانڈر کوئٹہ اور کور کمانڈر سدرن کمانڈ سے بھی بات کی ہے اور میں نے ان سے درخواست کی ہے اور اگر مولانا عبدالغفور حیدری کی حالت زیادہ خراب ہوتی ہے تو اسے سی ایم ایچ کوئٹہ منتقل کیاجائے اور مجھے انہوں نے بتایا کہ ہمارا ہیلی کاپٹر تیار ہے تاہم ابھی اطلاع ملی ہے کہ مولانا عبدالغفور حیدری کی حالت بہتر ہے انہوں نے کہا کہ دہشت گردی واقعات سے پارلیمان یا پاکستان کی عوام کو زیر کر سکیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہے انہوں نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر میر حاصل بزنجو نے کہا کہ مستونگ کا علاقہ ہمیشہ سے انتہا پسندوں کا گڑھ رہا ہے اور انہی علاقوں میں اہل تشیع پر بھی حملے ہوئے ہیں انہوں نے کاہکہ ہر کسی کو معلوم ہے کہ یہ ایریا ان دہشت گردوں کا گڑھ ہے مگر معلوم نہیں کہ اس علاقے کو نہیں دیکھا جا رہا ہے انہوں نے کہا کہ اس علاقے کا سرچ آپریشن بہت ضروری ہے ہم اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہیں انہوں نے کہاکہ اس علاقے میں موجود دہشت گردوں کا سب کو پتہ ہے اور خطرناک علاقہ ہونے کی وجہ سے وہان پر آرمی اور لیوی بھی نہیں جاسکتی ہے۔

سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ بلوچستان میں سب سے زیادہ خود کش دھماکے مستونگ میں ہوتے ہیں انہوں نے کہا کہ مولانا عبدالغفور حیدری پر بھی خود کش حملہ ہوا ہے اور بلوچ بیلٹ میں یہ پتہ نہیں چلتا ہے کہ کب ہمارے اوپر حملہ ہوگا انہوں نے کہا کہ اگر مولانا فضل الرحمن کو بلٹ پروف گاڑی نہ ملی ہوتی تو اس کا زندہ بچنا بھی مشکل تھا انہوں نے کہا کہ سینیٹرز کو کسی قسم کی سکیورٹی فراہم نہیں کی جاتیہے گزارش ہے کہ بلوچستان اور کے پی کے میں سیکیورٹی فراہم کی جائے سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ مولانا عبدالغفور حیدر پر خود کش حملہ افسوسناک ہے اور اس کی شدید مذمت کتے ہیں انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہم سیاستدان ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں جبکہ دوسری جانب دہشت گرد ہماری تاک میں بیٹھے ہیں انہوں نے کہا کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں دہشت گردی ، خارجہ پالیسی پر متفقہ پالیسی اپنا‘یں اس طرح ملک بھر میں بلا امتیاز آپریشن ہونا چاہیے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں حکومت نام کیکوئی چیز نہیں ہے کرپشن کا ناسور بڑھتا جارہا ہے بلوچستان کے عوام سیاسی جماعتوں سے متنفر ہوچکے ہیں انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کی کہ دہشت گردی سمیت بنیادی مسائل کے حل کیلئے متحد ہوجائیں۔

اس موع پر وفاقی وزیر پارلیمان شیخ آفتاب نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ بہت افسوسناک ہے اور حکومت اس کی مذمت کرتی ہے۔ سینیٹر کلثوم پروین نے مستونگ حادثے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ حادثے میں اب تک بیس افراد شہید ہوچکے ہیں اور مولانا صاحب کے ڈرائیور بھی شہید ہوئے ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا کوئی سخص خواہ وہ سیاستدان ہو یا آفیسر خود کش حملوں سے محفوط نہیں ہے انہوں نے کہا اگر بلوچستان کا کوئی بھی شہری یا سیاستدان محفوظ نہیں ہے تو کہا جاتا ہے کہ بلوچستان میں دہشتگردی سے نمٹا نہیں جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ سول اور آرمڈ فورسز ان دہشت گردوں پر قابو پانے میں کیوں ناکام ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر بلوچستان کے اس مسئلے پر پورے ہاؤس کی کمیٹیبنائی جائے تو بہت بہتر ہو گا تاکہ پتہ چلے کہ کیا وجہ ہے کہ بلوچستان میں اس سنگین مسئلے پر قابو نہیں پایا جا رہا ہے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ مولانا عبدالغفور حیدری کو علاج و معالجہ کی بہترین سہولیات فراہم کی جائیں۔

سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ سانحہ مستونگ کی شدید مذمت کرتے ہیں خودکش حملے پر ہمیں بہت افسوس ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں مسلسل ایسے واقعات ہو رہے ہیں جو کہ ہمارے لئے دکھ اور افسوس کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے سینیٹرز اور پارلیمنٹیرین کی سکیورٹی پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے اس سلسلے میں وزارت داخلہ سے بھی پوچھنا چاہیئے کہ آخر نیکٹا کا کیا کردار ہے۔

سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ ہم اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہیں اس ملک کا بنیادی مسئلہ دہشتگردی اور امن کا قیام ہے اور اس پر پارلیمنٹ سو فیصد متفق ہے ۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس کا خاتمہ کیںو نہیں ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کی ہدایات اور فیصلوں پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب ہمیں پسند نا پسند کو چھوڑ کر سخت ترین فیصلے کرنا پڑیں گے۔

اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رپورٹ پر عملدرآمد کیا جاتا اور اس کو وزارت داخلہ کی جانب سے مسترد نہ کیا جاتا تو حالات بہتر ہو جاتے۔ سینیٹر سعید الحسن مندوخیل نے کہا کہ ہم سانحہ مستونگ کے شہدا اور زخمیوں کے غم اور دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آخر یہ دھماکے کب تک ہونگے اور کیوں سینیٹر سعید الحسن مندوخیل نے کہا کہ یہ حملہ مولانا عبدالغفور حیدری پر نہیں بلکہ سینٹ کے ڈپٹی چیئر مین پر حملہ ہے۔

یہ حکومت کی رٹ چیلنج کرنے ولای بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے اوپر بھی حملہ ہوا تھا اور میرے دونوں گارڈز شہید ہوئے جس کے بعد میں نے گارڈز رکھنا چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کی رٹ چیلنج کرنے والی بات ہے ۔ ہمیں ابھی تک ملک کو چلانے کا طریقہ کار نہیں آیا ہے ہمیں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے اگر ہم اپنے ہمسائیوں کے ساتھ بہتر تعلقات نہیں رکھیں گے تو یہ پارلیمنٹ محفوظ رہے گا اور نہ ہی اہم تنصیبات اور پارلیمنٹیرین محفوظ رہیں گے۔

سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ مولانا عبدالغفور حیدری پر حملہ حکومت کی رٹ چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات کی تدارک کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ سانحہ مستونگ پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتا ہوں ۔ آج ہمیں الزامات عائد نہیں کرنے چاہیئں۔ یہ پاکستان پر اور سینٹ پر حملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعے میں پاکستان کے دشمنوں کا ہاتھ ہے جو لوگ پاکستان کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں انہوں نے کہ اکہ کاش 12مئی کے حوالے سے عدلیہ اپنی ذمہ داری پوری اور اس کے ذمہداروں کو قرار واقعی سزا دیے اور250سے زائد مزدوروں کو جلانے والے افسوس ناک ملزموں کو سزا دیتے تو بیرون ممالک پاکستان کے دشمنوں کو یہ پیغام دلاتا کہ پاکستان کی عدلیہ انصاف دے سکتی ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں پاکستان کو متحد کرنے کی ضرورت ہے۔

سینیٹر حافظ حمد اللہ نے کہا کہ اس سفاکانہ اور بزدلانہ حملے کی شدید مذمت کرتا ہوں ابھی تک جو اطلاعات ہیں اس کے مطابق مولانا عبدالغفور حیدری مدرسے میں کانفرنس میں شرکت کے بعد واپس جا رہے تھے کہ ان پر حملہ ہوا ہے۔ انہو ںنے کہا کہ ابھی تک 25کے قریب کارکن شہید ہو جبکہ40زخمی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مولانا عبدالغفور حیدری خطرے سے باہر اور محفوظ ہیں۔

سینیٹر حافظ حمد اللہ نے کہا کہ ملک میں ان پر حملہ کیا جاتا ہے جو ریاست کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ اس ریاست کی پہچان پارلیمنٹ ہے اور اگر ریاست کی پہچان غیر محفوظ ہے تو یہ ریاست کیسے محفوظ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بار بار کہا گیا ہے کہ آپ لوگوں کی جانوں کو خطرہ ہے۔ کیا ہمارے اداروں کی یہی ذمہ داری ہے کہ ہمیں صرف اطلاع دیں ۔انہوں نے کہا کہ اسفند یار ولی خان مولانا فضل الرحمن، مولانا شیرانی پر خودکش حملے ہوئے ہیں۔

اب مولانا عبدالغفور حیدری پر حملہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمعیت ملک کی سب سے بڑی مذہبی جماعت ہے اور تمام مذہبی جماعتوں کا یہ ہے کہ بندوق کے زور پر حکومت کی جا سکتی ہے اور نہ ہی منتخب حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد نہیں کی جا سکتی ۔ انہوں نے کہا کہ مشرف پر حملہ کرنے واے پکڑے جاتے ہیں مگر سیاستدانوں پر حملہ کرنے والے ابھی تک پکڑے ہیں گئے ہیں اور اگر پکڑا جائے تو سزا نہیں ملتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آخر خرابی کہاں ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بیرونی مداخلت کا راستہ روکنا کس کی ذمہ داری ہے ۔ یہ ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے یہ ایک بزدلانہ اور سفاکانہ حملہ تھا اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہیسینیٹر نگہت مرزا نے کہا کہ ہمیں خارجہ پالیس کو دیکھنا ہوگا، 10 قدم کے فاصلے پر لال مسجد میں اب بھی وہی کام جاری ہے لیکن اس پر کوئی عملدرآمد نہیں کیا جارہا جب تک خارجہ پالیسی مضبوط نہیں ہوتی اس وقت تک ملک میں امن و امان برقرار رکھنا ممکن نہیں ہے بچوں کو اغوائء کیاجارہے لیکن ان کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کئے جاتے۔

سینیٹر احمد حسن نے کہا کہ ہم غفور حیدری سمیت تمام زخمیوں کی صحت یابی کیلیء دعا گو ہین آج جن لوگوں کو ٹارگٹ کیا گیا ہے وہ ملک کی پہچان ہیں حکومت دہشت گردی کے خلاف ادامات کرے۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ عبدالغفور حیدری پر حملہ دشمنوں کی بزدلی کی علامت ہے اور حملے کی پر زور مزمت کرتے ہیں ملک کافی عرصہ سے دہشت گردی کا شکار رہا ہے آج کے واقعہ کے بعد یہ ثابتہوگی اہے کہ دہشت گردی کی جنگ ختم نہیں ہوئی یہ فیڈریشن پر حملہ ہے آج عہد کرنا ہوگا جب تک دہشت گرد اس دھرتی پر موجود ہیں ہم جنگ جاری رکھیں گے سینیٹر دئود اچکزئی نے کہا کہ افتخار لال اور دیگر شہیداء پر کافی دکھ ہوا ہے مارے جانے والے لوگوں کو کس چیز کی سزا دی جارہی ہے افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے کلیگجو کہ کیبنٹ کا حصہ ہیں اپنی سکیورٹی کا کہہ رہے ہیں جب ہمارے ساتھ سکیورٹی کا یہ مسئلہ ہے تو عما لوگوں کا کیا حال ہوگا ہمیں سکیورٹی کے بغیر گھومنا ہوگا تاکہ عام لوگوں کو نہ مروایا جائے ڈپٹی سپیکر پر حملہ ہوا ہے اور کوئی ایسا بندہ نہیں ہے جو اس حملے کی وضاحت کرے بلوچستان میں لوگ مرتے ہین اور دیگر صوبوں میں لوگ شہید ہوتے ہیں ہر واقعے کے پیچھے کچھ لوگ ہوتے ہیں صرف مذمت کرنے سے کچھ نہیں ہوگا عملی طور پر کچھ کرنا ہوگا حکومت اور ادارے بس یہی جواب دیتے ہیں کہ یہ را کی سازش ہے سی پیک کو ناکام بنانے کی کوشش ہے یہ باتیں چھوڑیں ہائوس کو حقائق بتائیں اور بتایا جائے کہ نیشنل ایکشن پلان پر کس ہد تک عمل درآمد ہوا ہے سینیٹ میں آکر دو جذباتی باتیں کرکے راہ فرار اختیار کرنا کافی نہیں ہے سینیٹر ہری رام نے کہا کہ آئے روز بلوچستان میں یہ واقعات پیش آرہے ہیں ان کو ختم کرنا روک تھام کرنا ریاست کا کام ہے تمام زخمیوں اور شہداء کے ورثاء کے ساتھ دکھ میں برابر کے شریک ہیں سینیٹر نثار محمد نے کہا کہ آج کا دن بہت ہی دکھ کا دن ہے اج سکوہ اور جواب شکوہ کی بات ہے ہماری سمت کا تعین نہیں ہے۔

سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ وہی دہشت گردی ہے وہی دھماکے ہین اور وہی جنازے ہیں ان حملوں میں بیرونی اندرونی طاقتیں ملوث ہوتی ہیں معاشی طاقتیں بھی کردار ادا کرتی ہیں لیکن نقصان غریب کا ہی ہوتا ہے دہشت گردی پورے خطے میں ہورہی ہے قومی رہنمائوں کے غلط فیصلوں کے نتیجے میں عوام آج بھگت رہی ہے سینیٹر جمالدینی کے بیٹے کی شہدت پر بہت افسوس ہے آج کا واقعہ افسوسناک ہے۔ (عابد شاہ/شاہد عباس)