حیدر آباد شہر اور لطیف آباد میں سڑکوں کی تعمیر اور نکاسی آب سے متعلق اسکیموں پرارکان کو اعتماد میں لیا جائے گا ،جام خان شورو

عبدالستار ایدھی روڈ پر کام شروع ہو چکا ہے، پانی کی ٹریٹمنٹ اور روڈوں کی تعمیر کا کام بھی جاری ہے،وزیربلدیات سندھ کا ایوان میں اظہار خیال

پیر 15 مئی 2017 20:46

حیدر آباد شہر اور لطیف آباد میں سڑکوں کی تعمیر اور نکاسی آب سے متعلق ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 مئی2017ء) سندھ کے وزیر بلدیات جام خان شورو نے سندھ اسمبلی کو یقین دلایا ہے کہ وہ حیدر آباد شہر اور لطیف آباد میں سڑکوں کی تعمیر اور نکاسی آب سے متعلق اسکیموں پر عمل درآمد اور آئندہ مالی سال کے ترقیاتی پروگرام میں رکھی جانے والی اسکیموں کے حوالے سے حلقے کے منتخب ارکان کو بھی اعتماد میں لیں گے اور ان کی مشاورت سے ان اسکیموں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا ۔

انہوں نے یہ یقین دہانی پیر کو سند ھ اسمبلی کے اجلاس کے دوران ایم کیوایم کے رکن راشد خلجی کے توجہ دلاؤ نوٹس کے جواب میں کرائی ۔ راشد خلجی کا کہنا تھا کہ حیدر آباد کے صوبائی حلقے 44 میں سڑکیں ایک طویل عرصے سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور سیوریج سسٹم بالکل تباہ ہو چکا ہے ، جس سے حلقے کے عوام کو سخت مشکلات کا سامنا ہے ۔

(جاری ہے)

وزیر بلدیات نے کہا کہ حیدر آباد شہر اور لطیف آباد کے لیے گذشتہ سال کے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں روڈوں کی تعمیر و مرمت اور سیوریج لائنوں کی تنصیب کے لیے کئی اسکیمیں رکھی گئی تھیں ، جن پر کام بھی جاری ہے ۔

عبدالستار ایدھی روڈ پر کام شروع ہو چکا ہے ۔ پانی کی ٹریٹمنٹ اور روڈوں کی تعمیر کا کام بھی جاری ہے ۔ اس کے علاوہ بھی کچھ اسکیموں پر کام ہو رہا ہے اور وہ ایوان میں یہ یقین دلاتے ہیںکہ وہ حلقے کے منتخب نمائندوں کی مشاورت سے مزید اسکیموں پر کام کرنے کے لیے بھی تیار ہیں ۔ ایم کیو ایم کے سید قمر عباس رضوی نے اپنے ایک توجہ دلاؤ نوٹس میں کراچی سینٹرل جیل کے قریب عثمانیہ مہاجر کالونی میں 11 مئی 2017 ء کو ڈکیتی کے ایک واقعہ میں ایک ہی گھر کے 5 افراد کو بے دردی کے ساتھ زخمی کرنے کے معاملے پر توجہ دلائی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ واقعہ میں ملوث مجرموں کی فوری گرفتاری کے لیے اقدامات کیے جائیں ۔

قمر عباس رضوی کا کہنا تھا کہ جس علاقے میں واقع پیش آیا ، کراچی سینٹرل جیل وہاں سے 200 گز کے فاصلے پر ہے ، جہاں ہر وقت سخت سکیورٹی ہوتی ہے لیکن نامعلوم ملزمان نے ، جنہیں دہشت گرد کہنا زیادہ مناسب ہو گا ، ایک ہی خاندان کے لوگوں کو فائرنگ کرکے شدید زخمی کر دیا اور وہ اس وقت اسپتالوں میں موت و زندگی کی کشمکش زیر علاج ہیں ۔ سینئر وزیر پارلیمانی امور نثار احمد کھوڑو نے ایوان کو بتایا کہ یہ واقعہ فجر کی نماز کے وقت پیش آیا ۔

واقعہ کی ایف آئی آر درج کی جا چکی ہے ۔ مسلح ملزمان رہزنی کے واقعہ میں گھر سے تین موبائل فونز اٹھا کر لے گئے ۔ اہلخانہ کو ایک کمرے میں بند کرکے ان پر پستول سے فائرنگ کی ، جس میں عمران حسین ، ان کی اہلیہ رخسانہ ، دو بیٹیا اور ایک بیٹا گولیاں لگنے سے زخمی ہوگئے ۔ معاملے کی تفتیش ہو رہی ہے ۔ مدعی نے خود ملزمان کو نامعلوم بتایا ہے ۔ یہ گھناؤنی حرکت ہے ۔

حکومت سندھ کی کوشش ہے کہ تحقیقات جلد مکمل ہوں اور واقعہ کے ملزمان پکڑے جائیں ۔ مسلم لیگ (فنکشنل) کی خاتون رکن نصرت سحر عباسی نے اپنے توجہ دلاؤ نوٹس کے ذریعہ اس بات پر گہری تشویش کا اظہار کیا کہ کراچی میں اکثر آتش زدگی کے واقعات ہوتے ہیں لیکن بلند و بالا عمارتوں میں ہونے والے ایسے واقعات کے موقع پر آگ بجھانے کے آلات موجود نہیں ہوتے ۔

حال ہی میں صائمہ ٹریڈ ٹاور پر جو آگ لگی تھی ، شکر ہے اس روز چھٹی کا دن تھا اور 20 ویں منزل پر آگ بجھانے کے لیے اسنارکل بھی موجود نہیں تھیں ۔ شہر میں اگر بلند و بالا عمارتیں بن رہی ہیں تو انسانی جانوں کی حفاظت کا بھی انتظام ہونا چاہئے ۔ وزیر بلدیات جام خان شورو نے کہا کہ خاتون رکن نے آتشزدگی کے حوالے سے جن تحفظات کا اظہار کیا ہے ، وہ بالکل جائز ہیں ۔

فائر ڈپارٹمنٹ کے ایم سی دیکھتی ہے ۔ حکومت سندھ اسے صرف گرانٹ دیتی ہے ۔ کے ایم سی کے پاس پہلے ہی تین اسنارکل موجود ہیں ، جو 8 ویں منزل تک آگ بجھا سکتی ہیں ۔ وزارت بلدیات 104 میٹر والی اسنارکل جب خرید رہی تھی تو ہماری اپوزیشن کی جانب سے اس پر اعتراضات اٹھائے گئے اور لوگ کورٹ تک چلے گئے ۔ ہم نے عدالت کو اس حوالے سے مطمئن کیا ہے ۔ بلندی پر آگ بجھانے والی یہ اسنارکل خریدنے کے بعد کے ایم سی کو دیں گے ۔

اس کی مناسب دیکھ بھال کرنا کے ایم سی کی ذمہ داری ہے ۔ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتی تو یہ ذمہ داری بھی وزارت بلدیات خود لینے کے لیے تیار ہے ۔ یہ ایوان اس کی مجھے اجازت دے دے ۔ انہوں نے کہاکہ چھوٹے چھوٹے کام کرنا کے ایم سی کی ذمہ داری ہے ۔ اگر وہ یہ بھی نہیں کر سکتی تو اس پر صرف افسوس کا اظہار کیا جا سکتا ہے ۔ انہوں نے بتایاکہ سندھ کے دوسرے اضلاع میں صوبائی حکومت مقامی بلدیاتی اداروں کو کوئی گرانٹ نہیں دیتی ۔ وہ اپنے وسائل سے کام کرتے ہیں ۔