پارلیمینٹ میں ابھی فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کی کاروائی شروع نہیں ہوئی ، اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں، مولانا فضل الرحمان کے ساتھ کوئی اختلاف رائے نہیں ہے ان کے ساتھ طے شدہ معاملات کی خلاف ورزی نہیں کی ہے

تاحال فاٹا کے انضمام کا بل ابھی نہیں لایا گیا، یہ رواج ایکٹ سے متعلق بل ہے ، موجودہ بل ایف سی آر کو ختم کیا جاسکے جس پر کسی کو اختلاف نہیں ، وزیرسیفران عبدالقادر بلوچ فاٹا اراکین کی بجٹ اجلاس سے قبل فاٹا اصلاحات منظور نہ ہونے پر استعفوں کی دھمکی

پیر 15 مئی 2017 23:24

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 15 مئی2017ء) وزیرسیفران لیفٹینٹ جنرل(ر) عبدالقادر بلوچ نے واضح کیا ہے کہ پارلیمینٹ میں ابھی فاٹا کے صوبہ خیبرپختونخوا میں انضمام کی کاروائی شروع نہیں ہوئی ، اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں، مولانا فضل الرحمان کے ساتھ کوئی اختلاف رائے نہیں ہے ان کے ساتھ طے شدہ معاملات کی خلاف ورزی نہیں کی ہے ، اس امر کا اظہار انھوں نے پیر کو قومی اسمبلی میں فاٹا میں ایف سی آر کے خاتمہ اور رواج ایکٹ کے نفاذ کے حوالے سے آئینی ترمیمی بل اور رواج ایکٹ بل پر بحث سمیٹتے ہوئے کیا ۔

ایوان میں فاٹا اراکین نے بجٹ اجلاس سے قبل فاٹا اصلاحات منظور نہ ہونے استعفے دینے اور سڑکوں پر احتجاج کی دھمکی دے دی ہے ۔وزیرسیفران نے کہا کہ فاٹا کے انضمام کا بل ابھی نہیں لایا گیا، یہ رواج ایکٹ سے متعلق بل ہے ، ایف سی آر کو ختم کیا جاسکے جس پر کسی کو اختلاف نہیں ۔

(جاری ہے)

مولانا فضل الرحمان سے جو معاملات طے کیے گئے ہیںاس کی خلاف ورزی نہیں کی ، کالے قانون کو ختم کرنا بنیادی ضرورت ہے ، آئین کے تحت صدر پاکستان کا اختیار ہے کہ وہ جرگہ کا تعین کرے اور رائے لیں ، یہ اختیار کسی سیاسی جماعت کا نہیں ہے ، صدر نے حکومت کو ریگولیشن کے تحت اختیار دیا ہے کہ فاٹا میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے ، آئین کے تحت پارلیمنٹ کی کوئی شرط نہیں ہے ، کسی سیاسی جماعت کی جانب سے جرگہ بلا کر اس پر ردعمل سب کیلئے لازمی قرار دینا کسی کا استحقاق نہیں ہے ، ہم نے معاشرے کے کسی طبقہ کو نہیں چھوڑا جس سے مشاورت نہ کی ہو ، حکومت110ارب سالانہ خرچ کر کے ترقی دینا چاہتی ہے اس میں تاخیر کی گئی تو سارا عمل متاثر ہو جائے گا ، انضمام کی کاروائی اپنے وقت ہو گی ، ہم اتحادیوں سے ملکر چلنا چاہتے ہیں، اتحادیوں کو ساتھ لیکر چلنے کیلئے کابینہ سے فاٹا اصلاحات کی منظوری میں دو ماہ کی تاخیر ہوئی ، فاٹا کے عوام کے مسائل کے حل کیلئے پرعزم ہیں ، اس کیلئے سب سے درخواست ہے کہ وہ ساتھ دیں ۔

قبل ازیں بحث میں حصہ لیتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ فاٹا اصلاحات پر مولانا فضل الرحمان کے موقف کی اہمیت ضرورہوگی لیکن اختلاف رائے بل کے بعد سامنے آچکا ہے ، مولانا فضل الرحمان ریفرنڈم کی بات کر رہے ہیں اس سے اسمبلی کی مدت کے دوران بل پر پیش رفت ہوتی نظر نہیں آرہی ، مولانا کی جماعت حکومت کی حلیف ہے ، آج ظاہر ہوا ہے کہ حکومت اور حلیفوں کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے ، بل کی مخالفت حکومت کے وزراء کر رہے ہیں اگر تیاری نہیں تھی تو بل پیش نہیں کرنا تھا ، اس بل کی وجہ سے ڈان لیکس کے حوالے سے ہم نے تحریک کو التوا میں ڈالا ، اس کا مطلب ہے کہ حکومت کی صفوں میں دراڑیں ہیں ، اگر حکومت نے مولانا کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے تو مولانا فضل الرحمان حکومت سے علیحدگی کا اعلان کرے ۔

اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ ہم نے بل کی مخالفت نہیں کی حکومت اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرے ، حکومت نے بجٹ پیش کرتاہے فاٹا کو راضی کرنا ہے ہونے کو کچھ نہیں ہوگا، فاٹا والوں کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے ، مولانا فضل الرحمان فکر مت کریں ۔فاٹا کے پارلیمانی رہنما حاجی شاہ گل آفریدی نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ فاٹا کا ڈیڑھ سو سال کے غلامانہ نطام کے خاتمہ کیلئے مل کر کام کر رہے ہیں ، کسی کو حق نہیں کہ وہ کہے کہ قبائلی ہمارے غلام ہیں اور ان کو اپنے مقصد کیلئے استعمال کریں گے ، تمام سیاسی پارٹیاں فاٹا کے حوالے سے اسٹیک ہولڈرز ہیں وہ فاٹا پر بات کر سکتے ہیں ، تمام سیاسی جماعتیں فاٹا کی نمائندگی کرتی ہیں 1947کو تکمیل پاکستا ن نہیں سمجھتا کیونکہ دنیا میں کوئی ملک نہیں جو اپنے کسی علاقے کو علاقہ غیر کہے مکمل کیسے ہوسکتا آج تکمیل پاکستان کو دن ہے ملک میں دو قانون ہوں ، اس سے قبل فاٹا کے عوام کے ساتھ سب نے غداری کی ۔

قبائلی عوام سب سے زیادہ محب وطن ہیں وہ ڈیڑھ سول سال سے غلامانہ نظام برداشت کررہے ہیں ۔ اور ایک بھی احتجاج نہیں کیا ، اگر آج پھر بھی حق نہیں دیتے تو پھر آپ غدار بنا رہے ہو ۔ فاٹا اصلاحات کی مخالفت کرنے والے بتائیں آپ اس وقت کہاں تھے جب فاٹا کے عوام کے جنازے اٹھ رہے تھے آپ وہاں کیوں نہیں گئے جب دہشت گردی میں مسجدوں اور گھروں میں بم پھٹ رہے تھے ، پاکستان ایشیا کا ٹائیگر بنے گا اگر فاٹا اصلاحات ہوجائیں، خدا کیلئے سیٹوں کو نہ دیکھیں فاٹا کے عوام کے حقوق کو دیکھو قیادت کو جواب دینا پڑے گا ۔

جماعت اسلامی کے رہنما صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ 1947 سے اب تک ایک کروڑ پاکستان کے عوام کے حقوق نہیں دیئے جا رہے ہیں ، جماعت اسلامی بل کو سپورٹ کرتی ہے ، بل منظور ہونا چاہیے فاٹا کو اس سے قبل علاقہ غیر اور ایک بفر زون سمجھا جاتا تھا۔تحریک انصاف کے داوڑا خان کنڈی نے کہا کہ ہم بل کی حمایت کرتے ہیں فاٹا کو قومی دھارے میں شامل لایا جائے اورر ترقی دی جائے ۔

فاٹا کو غلط پالیسیوں کی وجہ سے پسماندگی کا شکار کیا جاتا رہا ہے ، فاٹا میں لوگوں کو مجاہدین بنایا گیا ، فاٹا کے خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے حوالے سے تحفظات ہیں پہلے اس کو دور کیا جائے ایسا نہ ہو بعد میں قبائلی عوام خیبرپختونخوا میں شامل ہونے سے انکار کردیں ۔حکومتی رکن شہاب الدین خان نے کہا کہ آج دل خون کے آنسو رو رہا ہے کیونکہ جو 1973کے آئین کا حوالہ دیتے ہیں وہ بل کی مخالفت کر رہے ہیں اور اس طرح کا تاثر دے رہے ہیں جیسے فاٹا والے علیحدہ ریاست چاہتے ہوں ۔

اگر بجٹ اجلاس سے قبل مسئلہ حل نہ ہوا تو فاٹا ارکان استعفے دیں گے اور سڑکوں پر احتجاج کریں گے ۔ مولانا جمال الدین نے کہا کہ ہمیں ایک غلامی سے چھڑا کر دوسرے آقا کا غلام نہ بنایا جائے ، فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے حوالے سے اکثریتی قبائلی مخالف ہیں۔ غازی گلاب جمال نے کہا کہ اصل مسئلہ بے گھر خاندانوں کی بحالی ہے ۔ عبدالقہار وردان نے کہا کہ فاٹا کے عوام پاکستان سے محبت کرتے ہیں ۔

کیپٹن (ر) محمد صفدر نے کہا کہ فاٹا کے عوام کو اسلام آباد کے مساوی سہولتیں ملنی چاہئیں ۔ قومی اسمبلی فاٹا کے محافظ کا کردار ادا کرے اور اسے پولیٹکل ایجنٹ کے ظلم سے بچایا جائے ۔ ڈاکٹر عباد نے کہا کہ ایوان میں 70فیصد سے زائد نان پختون ارکان فاٹا اصلاحات پر متفق ہیں جبکہ 20فیصد سے کم ارکان جو پختون ہیں مخالفت کررہے ہیں ،حکومت قبائلی عوام کو گلے سے لگائے ۔ (وخ)