ایوان میں فاٹا کے حوالے سے بل قبائلی علاقوں کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام کے لئے نہیں پیش کئے گئے،ان کا مقصد فاٹا اصلاحات کا آغاز ہے‘ریاستوں و سرحدی امور کے وفاقی وزیر جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کا قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال

پیر 15 مئی 2017 23:36

اسلام آباد ۔15 مئی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 15 مئی2017ء) ریاستوں و سرحدی امور کے وفاقی وزیر جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے کہا ہے کہ ایوان میں فاٹا کے حوالے سے بل قبائلی علاقوں کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام کے لئے نہیں پیش کئے گئے بلکہ ان بلوں کا مقصد فاٹا اصلاحات کا آغاز ہے‘ ایف سی آر جیسے کالے قانون کے قبائلی علاقوں پر نفاذ کی پوری قوم مخالف ہے‘ ان کا متبادل رواج اور شریعہ بہترین راستے ہیں‘ اس موقع پر اگر فاٹا اصلاحات کا عمل متاثر ہوا تو 110ارب روپے سالانہ فاٹا کی ترقی کے لئے خرچ کرنے کا پیکج بھی متاثر ہوگا۔

پیر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں بحث کو سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ جو ہمارا اتفاق رائے ہوا ہے اس پر حکومت کو کوئی اختلاف نہیں ہے۔

(جاری ہے)

فاٹا کے انضمام کے حوالے سے بل نہیں لایا گیا بلکہ رواج ایکٹ بل پیش کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں سے کالے قانون ایف سی آر کا خاتمہ کرنے کے لئے قانون کی ضرورت ہے۔

اس کا متبادل رواج اور شریعہ بہترین راستے ہیں۔ رواج ایکٹ میں فاٹا کے عوام کو پشاور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کا حق دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 247 میں ترمیم لائی جارہی ہے کہ صدر مملکت قبائلی علاقوں کے بطور قبائلی علاقہ کام کرنے کو روک سکیں گے تاہم کوئی بھی حکم نامہ جاری کرنے سے قبل قبائلی علاقوں کے عوام کی قبائلی جرگہ کے ذریعے رائے لینا ہوگی۔

انہوں نے آئین کے دیگر اقتباسات بھی پڑھ کر سنائے۔ ہم کوئی بھی قانون پارلیمنٹ کے ذریعے لانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا کے حوالے سے یہ اختیار آئین نے صدر پاکستان کو دیا ہے جو اپنا اختیار حکومت کے ذریعے استعمال کرتے ہیں۔ ہم نے بھی سب کی رائے لے کر فاٹا اصلاحات مرتب کیں۔ انضمام کے حوالے سے پانچ سال کی مدت مقرر کی گئی ہے ہم نے دس سال تک فاٹا کی ترقی کے لئے 110 ارب روپے سالانہ پر مبنی پیکج دیا ہے۔ اگر اس وقت ہم نے اس کی مخالفت کی تو ترقی کا یہ عمل رک جائے گا۔ فاٹا کے عوام کو صحت اور تعلیم کی سہولیات کی ضرورت ہے۔