سندھ کودستیاب پانی سے اسکے حصہ کا پوراپانی فراہم کیا جا رہا ہے، علاقے تک پانی بھیجنے میں 15 سے 20 دن لگ جاتے ہیں، پانی کی کمی کے باعث بھی سندھ کو پورا پانی فراہم کیا گیا،سندھ کو پانی طلب کے مطابق دیا گیا، بھاشا کے ساتھ ساتھ داسو ڈیم پربھی کام شروع ہو چکا ہے،بھاشا ڈیم بننے سے تربیلا ڈیم کی لائف تیس سال بڑھ جائے گی ،دادو کے فیزٹو سے 2100 میگاواٹ بجلی بھی حاصل ہو گی،کچی کینال کے فیز ون کیلئے 80ارب روپے کے پی سی ون پر عمل ہونے سے 72ہزار ایکڑ زمین کو پانی فراہم کیا جاسکے گا،سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو پانی و بجلی اورارسا حکا م کی بریفنگ

پیسکو کے تعمیراتی کاموںکی تفصیلات کا جائزہ لینے کیلئے ذیلی کمیٹی قائم،چیئرمین کمیٹی کا سیکرٹری پانی و بجلی کی اجلاس میں عدم شرکت پر اظہار برہمی

منگل 16 مئی 2017 18:41

اسلام آ باد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 16 مئی2017ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کو آ گاہ کیا گیا ہے کہ سندھ کودستیاب پانی سے اسکے حصہ کا پوراپانی فراہم کیا جا رہا ہے،سندھ تک پانی بھیجنے میں 15 سے 20 دن لگ جاتے ہیں، پانی کی کمی کے باعث بھی سندھ کو پورا پانی فراہم کیا گیا،سندھ کو پانی طلب کے مطابق دیا گیا، بھاشا کے ساتھ ساتھ داسو ڈیم پربھی کام شروع ہو چکا ہے،بھاشا ڈیم بننے سے تربیلا ڈیم کی لائف تیس سال بڑھ جائے گی ،دادو کے فیزٹو سے اکیس سو میگاواٹ بجلی بھی حاصل ہو گی،کچی کینال کے فیز ون کے لیے 80ارب روپے کے پی سی ون پر عمل ہونے سے 72ہزار ایکڑ زمین کو پانی فراہم کیا جاسکے گا۔

ان خیالات کا ااظہار ایڈیشنل سیکرٹری پانی وبجلی اور ارسا حکام نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کیاجبکہ چیئرمین کمیٹی نے پیسکو کے تعمیراتی کاموں جن میں گرڈ اسٹیشن ، فیڈرز شامل ہیں کی تفصیلات کا جائزہ لینے کے لئے سینیٹر نثار محمد کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی قائم کردی۔

(جاری ہے)

منگل کوسینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کا اجلاس سینیٹر یعقوب خان ناصر کی صدارت میں ہوا۔

چیئرمین کمیٹی نے سیکرٹری پانی و بجلی کی اجلاس میں عدم شرکت پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہاکہ معلومات تو ہمیں سیکشن انچارج سے بھی مل سکتی ہیں اگر حکام نہیں آ سکتے تو کمیٹی ختم کر دیتے ہیں۔اجلاس میں سندھ کو خریف کی فصل کے لیے کم وپانی ملنے کے معاملے پر بحث کی گئی۔ سینٹر تاج حیدر نے کہاکہ سندھ میں خریف میں پانی کی کمی کا مسئلہ ہوتا ہے۔

مارچ اور اپریل میں پانی کی کمی کے باعث خریف کی فصل متاثر ہوئی۔22 لاکھ ایکڑ زرخیر زمین سمندر میں جا چکی ہے۔معاملے پر تیار کی گئی رپورٹ میں نہیں بتایا گیا کہ کتنی زمین سمندر میں جا چکی ہے۔اگلے پچاس سال میں سمندر سندھ کی ذرخیز زمین ہر آ جائے گا ۔بھاشا ڈیم پر کام بھرپور طریقے سے جاری ہے۔ ایڈیشنل سیکرٹری پانی و بجلی نے کہاکہ بھاشا کے ساتھ ساتھ داسو ڈیم کا کام بھی شروع ہو چکا ہے۔

بھاشا ڈیم بننے سے تربیلا ڈیم کی لائف تیس سال بڑھ جائے گی۔بھاشا کے ساتھ ساتھ داسو ڈیم پر بھی کام جاری ہے۔دادو کے فیزٹو سے اکیس سو میگاواٹ بجلی بھی حاصل ہو گی۔چیئرمین ارسا نے کہاکہ سندھ کو پانی دیا جا رہا ہی. سندھ تک پانی بھیجنے میں 15 سے 20 دن لگ جاتے ہیں۔سندھ کو پانی ڈیمانڈ کے مطابق دیا گیا۔سندھ کی اٹھارہ اعشاریہ نو ڈیمانڈ جبکہ انیس اعشاریہ چار پانی دیا گیا۔

چئیرمین کمیٹی نے کہا کہ بلوچستان زمین کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے جبکہ بلوچستان کو کم پانی دیا جاتا ہے۔پانی کو زمین کے مطابق تقسیم کیا جانا چاہیے۔بلوچستان میں لاکھوں ایکڑ زرخیز زمین ہے لیکن پانی کے معاہدے کے مطابق بہت کم پانی ملتا ہے۔ ایڈیشنل سیکرٹری پانی وبجلینے کہاکہ چیئرمین کمیٹی کے سوال کے جواب میں بتایا کہ دسمبر تک کچی کینال کے فیز ون کے لیے 80ارب روپے کے پی سی ون پر عمل ہونے سے 72ہزار ایکڑ زمین کو پانی فراہم ہوگا۔

سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ صوبہ سندھ کی 22 لاکھ ایکٹر زمین سمندر برٴْد ہو گئی ہے۔سرکاری دستاویزات میں آگاہ نہیں کیا گیا کہ کتنی زمین سمندر برد ہوچکی اور اگلے پچاس سال میں سمندر سندھ کی کتنی زرخیز زمین پر آجائے گا۔ صوبہ سندھ کے نصف علاقے میں خریف کی فصل کاشت نہیں کی جا سکی۔ جب سندھ کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے اس وقت سندھ کو پانی کیوں نہیں ملتا۔

بدقسمتی سے پانی ذخائر کے آپریشنل سسٹم پیمانے طے نہیں۔21مارچ سے 31مارچ تک 495فیصد کمی کی گئی۔ ارسا کے ریکارڈ میں تضاد ہے۔موجود پانی کے ڈیموں کے بھی تکنیکی مسائل ہیں۔ بھاشاہ ڈیم کے بارے میں بھی اے جی این عباسی رپورٹ قابل توجہ ہے۔ اگر ڈیسلٹنگ نہ کی گئی تو ڈیڈواٹر لیول بڑھے گا۔سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ وزارت حکام اور ارسا یقین دہانی کرائیں کہ پانی معاہدے پر نظر ثانی نہیں کی جارہی۔

سینیٹر نثار محمد نے کہا کہ خادو گرڈ اسٹیشن مالا کنڈ تین سال سے تین سال سے تاخیر کا شکار ہے۔ سرکاری کام کی فائل پر عملدرآمد کے لیے تین سال کیوں لگے۔ پیسکو کے تعمیراتی کام انتہائی سست ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے پیسکو کے تعمیراتی کاموں جن میں گرڈ اسٹیشن ، فیڈرز شامل ہیں، کی تفصیلات کے لیے سینیٹر نثار محمد کی سربراہی میں سینیٹر زاحمد حسن اور ظفراللہ ڈھانڈلہ پر مشتمل ذیلی کمیٹی قائم کردی۔

سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ اگر رمضان المبارک میں لوڈشیڈنگ کرنی ہے تو پورے ملک میں برابر ہونی چاہیے۔ پیسکو واحد ادارہ ہے جو مرکزی نظام سے اپنی طلب سے کم بجلی لے رہی ہے۔ پیسکو ،لیسکو کی طرح ضرورت سے زائد بجلی لے۔ سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری میں بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں میں 19فیصد مارک اپ دیا جارہا ہے۔

جو دنیا بھر میں بجلی پر سب سے زیادہ مارک اپ ہے۔ دنیا بھر میں شمسی توانائی سے بجلی فی یونٹ 3روپے میں بنتی ہے۔ پاکستان میں 10روپے پر دی جارہی ہے۔ ایڈیشنل سیکرٹری نے بتایا کہ رمضان میں صنعتی شعبے میں لوڈشیڈنگ کرکے گھریلو صارفین کو بجلی دی جاتی ہے۔ پیسکو چیف اور جنرل مینجر ممبران کمیٹی کے سوالات کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ پیسکو چیف نے بتایا کہ 928میں سے 64فیڈرز پر لوڈشیڈنگ صفر ہے۔

نظام کمزور ہونے کی وجہ سے بعض علاقوں میں لوڈشیڈنگ ہے۔ این پی سی سی کے ایم ڈی نے سینیٹر نعمان وزیر کے سوال پر بتایا کہ فروری میں بجلی کی کل پیداوار 9450مار چ میں 10271اپریل میں 12383میگا واٹ تھی۔ پیسکو کو اپریل میں 1368اور مئی میں 1526میگاواٹ بجلی دی گئی۔ سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ سافٹ ویئر لگایا جائے تاکہ بجلی کی طلب سے زائد استعمال اور کم وصولی کا ریکارڈ بن سکے۔

سینیٹر نثار محمد نے کہا کہ 97فیصد ادائیگی کرنے والے مالا کنڈ ڈویڑن میں 12گھنٹے لوڈشیڈنگ ہے اور پشاور کے بعض علاقوں جہاں وصولیاں نہیں لوڈشیڈنگ بھی نہیں۔ کارکردگی بہتر بناکر بجلی چوری روکی جائے۔ پیسکو چیف نے کہا کہ 250میگا واٹ کا میٹروں میں فرق ہے اور حساس علاقوں میٹر ریڈنگ نہ ہونے کی وجہ سے 100میگاواٹ کا ریکارڈ نہیں او ربتایا کہ مانسہرہ میں دو تین ماہ میں گرڈ سٹیشن لگ جائے گا۔

مالاکنڈ ڈویڑن میں بھی تکنیکی مسائل ہیں۔ 220کے وی کا گرڈ سٹیشن چاہیے۔ سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ فیڈرز کو پورے کرنٹ پر چلانے کے لیے ڈیسکوز پورا لوڈ لیں۔چیئرمین کمیٹی نے وزارت حکام سے جاری بجلی پیداواری منصوبو ں کے بارے میں پوچھتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نے 2018میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا واعدہ کیا ہے۔ کون کون سے منصوبوں پر کام جاری ہے۔

ایڈیشنل سیکرٹر ی وزارت نے بتایا کہ ایل این جی سے بجلی پیدا کرنے کے تین پلانٹس زیر تکمیل ہیں۔ دسمبر تک 3600 میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہوجائے گی۔ سینیٹر نعمان وزیر کے سوال نے کہا کہ شمسی توانائی پر نیپرا نے ٹیرف 10روپے کیا وزارت نے کیوں کارروائی نہیں کی۔ نندی پور پاور پروجیکٹ 32لاکھ ڈالر فی میگاواٹ ، بکی اور بلو کی 4لاکھ ڈالر فی میگاواٹ کیوں ہیں۔ وزارت حکام نے کہا کہ تمام منصوبے آئی پی پیز کے ذریعے ہورہے ہیں۔ ٹیرف کے معاملے پر نیپرا کو اجلاس میں بلائیں۔ این پی سی سی سے بجلی کی پیداوار تقسیم کی تحریری تفصیلات کے علاوہ نیپرا سے ٹیرف معاملے کو آئندہ ایجنڈے میں شامل کیا گیا۔(و خ )