فاٹا ریفارمز کا معاملہ عرصے سے حل طلب ہے جلد ازجلد فاٹا سے متعلق اصلاحات کر لیں جائیں ، اس کیلئے تمام متعلقہ طبقوں کو اعتماد میں لیا جانا ضروری ہے،بھارت کے ساتھ تعلقات اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتے جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوگا، قوم کو اس وقت دہشت گردی کے خلاف ایک ہونا پڑے گا فوج اور سیاسی قیادت کو یکجا ء ہو کر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنا پڑے گی

چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی کی صوبائی خود مختاری اور 18ویں ترمیم کے موضوع پر خصوصی لیکچر سے قبل میڈیا سے گفتگو

بدھ 17 مئی 2017 22:11

فاٹا ریفارمز کا معاملہ عرصے سے حل طلب ہے جلد ازجلد فاٹا سے متعلق اصلاحات ..
اسلام آباد/پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 17 مئی2017ء) چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی نے کہا ہے کہ فاٹا ریفارمز کا معاملہ عرصے سے حل طلب ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ جلد ازجلد فاٹا سے متعلق اصلاحات کر لیں جائیں ، لیکن اس کیلئے تمام متعلقہ طبقوں کو اعتماد میں لیا جانا ضروری ہے،بھارت کے ساتھ تعلقات اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتے جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

قوم کو اس وقت دہشت گردی کے خلاف ایک ہونا پڑے گا فوج اور سیاسی قیادت کو یکجا ء ہو کر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنا پڑے گی۔ وہ بدھ کو نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف منیجمنٹ پشاور میں صوبائی خود مختاری اور اٹھارویں ترمیم کے موضوع پر خصوصی لیکچر سے قبل میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے ۔ میاں رضاربانی نے کہا کہ کسی بھی قانون اور اصلاحات کی سفارشات میں خامیاں ہو سکتی ہیں اور انکو بہتر بنانے کی گنجائش ہر وقت اور ہمیشہ موجود رہتی ہے۔

(جاری ہے)

اس وقت معاملہ ایوان زیر میں زیر بحث ہے اور یہ ایوان بالاء میں آئے گا۔ پارلیمنٹ جو بھی ترمیم اس میں کرنا چاہے گی کر سکتی ہے ، اس وقت دہشت گردی اور علاقائی معاملات کی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے۔ ایک طرف ایران کے بیانات آرہے ہیں تو دوسری طرف افغانستان کے ساتھ تعلقات زیادہ اچھے نہیں ہیں اور بھارت کے ساتھ تعلقات اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتے جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

قوم کو اس وقت دہشت گردی کے خلاف ایک ہونا پڑے گا فوج اور سیاسی قیادت کو یکجا ء ہو کر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنا پڑے گی۔ اس وقت ایک مشترکہ اور مدلل قومی بیانیہ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مشترکہ بیانیہ کسی وزارت یا دفتر کے اندر نہیں بلکہ صرف اور صرف پارلیمان میں تیار ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں پارلیمان کو اپنا کردار ادا کرناچاہیے اور دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے خلاف ایک جوابی قومی بیانیہ تیار کرنا چاہیے۔

صوبے اٹھارویں ترمیم کے تحت حاصل اختیارات سے فائدہ نہیں اٹھا رہے اور یہ اختیارات بھی مکمل طور پر صوبوں کے حوالے نہیں کئے گئے۔اگر صوبے سمجھتے ہیں کہ ان کے اختیارات سلب کئے گئے ہیں تو اس کے خلاف آواز اٹھانے کیلئے فورمز موجود ہیں۔ اس سلسلے میں مشترکہ مفادات کونسل میں معاملہ اٹھایا جا سکتا ہے اور اگر صوبے سی سی آئی کے فیصلوں سے بھی راضی نہ ہوں تو معاملہ پارلیمان میں اٹھایا جا سکتا ہے اس لئے ایوان بالائنے ایک قرار داد کے ذریعے سینیٹ کے اختیارات بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔

تاکہ صوبائی خود مختاری سے متعلق مفادات کا تحفظ کر سکے۔ میاں رضا ربانی نے مزید کہا کہ اٹھارویں ترمیم نے صوبوں کے مابین اختلاف کے حل کیلئے ایک جامع لائحہ عمل دیا ہے اور مشترکہ مفادات کونسل کی صورت میں ایک اہم فورم کو مزید موثر بنایا گیا ہے۔اب یہ صوبوں پر منحصر ہے کہ وہ اس فورم سے موثر طور پر فائدہ اٹھائیں ، انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے ایک مرکزیت پسند سوچ اٹھارویں ترمیم کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔

تعلیم اور صحت جو کہ بنیادی طور پر صوبائی دائر اختیار میں آتے ہیں کووفاق نے غصب کیا ہوا تھا تاہم اٹھارویں ترمیم نے تعلیم اور صحت کو صوبائی دائر اختیار میں دے دیا۔انہوں نے کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح ? نے پاکستان کا تصور ایک ترقی پسندانہ جمہوری فلاحی ریاست کے طور پر پیش کیا تھا تاہم بد قسمتی سے نیشنل سیکیورٹی ریاست کا تصور حاوی ہو گیا اور ترجیحات بدل گئیں اور سول ملٹری بیورو کریسی کو اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے کا موقع ملا گیا۔

میاں رضاربانی نے کہا کہ وفاق کا تعلیم کو اپنے پاس رکھنے کا مقصد ایک ایسی مخصوص شہری پیدا کرنا تھا جو سوال نہ کر سکیں اور اسی طرح صحت کے شعبے پر بھی ایک مخصوص سوچ نے مخالفت کی کیونکہ اس شعبے کے ساتھ کافی مراعات وابستہ تھیں۔ انہوں نے مشترکہ مفادات کونسل کو اٹھارویں ترمیم کے لئے ایک انجن قراردیا۔میاں رضاربانی نے مشترکہ مفادات کونسل کے اٹھارویں ترمیم کے بعدکے کردار پر تفصیلی روشنی ڈالی اور پارلیمان کو زیادہ بااختیار بنانے پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹ صوبوں کے حقوق اور صوبائی خود مختاری کے دفاع کے تحفظ کا علم بردار ہے اور انہوں نے بجٹ بنانے سے متعلق سینیٹ کے کردار کو زیادہ موثر بنانے کا مطالبہ کیا۔ تاکہ سینیٹ موثر طریقے سے صوبائی خود مختاری کے تحفظ اور صوبوں کے حقوق کیلئے بھر پور طریقے سے آواز بلند کر سکے۔