ترکی پر کسی بھی قسم کا حملہ ہونے کی صورت میں کسی سے اجازت لئے بغیر آپریشن کریں گے،طیب اردگان

ٹرمپ سے کہا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کا ساتھ چھوڑیں اور آئیں دہشت گردی کے خلاف مل کر جدوجہد کریں، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ اس طرف مائل نہیں ہوئے، ہم دہشت گرد تنظیموں کو علاقے کے اندر بھی اور باہر بھی سکھ کا سانس نہیں لینے دیں گے اور اس معاملے میں اپنے عزم پر برقرار رہیں گے، شام کے موضوع پر امریکہ کو ترکی کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑے گا،ترک صدر طیب اردگان کی واشنگٹن میں ترک سفارت خانے میں صحافیوںسے گفتگو

جمعرات 18 مئی 2017 14:21

ترکی پر کسی بھی قسم کا حملہ ہونے کی صورت میں کسی سے اجازت لئے بغیر آپریشن ..
واشنگٹن /انقرہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 18 مئی2017ء) ترک صدر رجب طیب اردگان نے خبردار کیا ہے کہ ترکی پر کسی بھی قسم کا حملہ ہونے کی صورت میں ہم کسی سے اجازت لئے بغیر آپریشن کریں گے، ٹرمپ سے کہا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کا ساتھ چھوڑیں اور آئیں دہشت گردی کے خلاف مل کر جدوجہد کریں، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ اس طرف مائل نہیں ہوئے، ہم دہشت گرد تنظیموں کو علاقے کے اندر بھی اور باہر بھی سکھ کا سانس نہیں لینے دیں گے اور اس معاملے میں اپنے عزم پر برقرار رہیں گے، شام کے موضوع پر امریکہ کو ترکی کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑے گا۔

ترک خبررساں ادارے کے مطابق صدر طیب اردگان نے واشنگٹن میں ترک سفارت خانے میں صحافیوںسے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیم پی کے کے کی شامی شاخ ’’وائی پی جی /پی وائی ڈی ‘‘ کی طرف سے ترکی پر کسی بھی قسم کا حملہ ہونے کی صورت میں ہم کسی سے اجازت لئے بغیر آپریشن کریں گے۔

(جاری ہے)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں تفصیلات بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خاص طور پر ’’وائی پی جی /پی وائی ڈی ‘‘کو خواہ کسی بھی ملک کی طرف سے کیوں نہ ہو ، مخاطب بنایا جانا عالمی سطح پر طے پانے والے اتفاق رائے سے ہم آہنگ نہیں ہے۔

دہشت گرد تنظیموں ’’وائی پی جی /پی وائی ڈی ‘‘کی طرف سے حملے کی صورت میں کسی سے پوچھے بغیر کاروائی کرنے کی بات سے کھلے الفاظ میں ٹرمپ کو آگاہ کرنے کا ذکر کرتے ہوئے صدر اردگان نے کہا کہ ہم نے 'رائی' میں ، جرابلس اور الباب میں ایسا کیا بھی ہے اور ان کاروائیوں سے ہم نے یہ ثابت کیا ہے کہ ترکی کیا کچھ کر سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ میں نے ٹرمپ سے کہا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کا ساتھ چھوڑیں اور آئیں دہشت گردی کے خلاف مل کر جدوجہد کریں۔

لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ اس طرف مائل نہیں ہوئے۔صدر ایردوان نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ ہم نے منبچ کو خالی کر دیا ہے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا نتیجتا ابھی تک وہاں موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں پوچھتا ہوں کہ جب منبچ اور راقہ دہشت گرد تنظیم داعش سے خالی ہو گا وہاں کون مقیم ہو گا ان علاقوں کے مقامی عوام کون ہیں یقینا عرب۔ اگر آپ ان علاقوں کو کردوں سے بھریں گے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کردوں اور عربوں کو لڑانا چاہتے ہیں۔

خواہ منبچ ہو خواہ راقہ ،مستحکم اور درست اقدامات کے ساتھ دہشتگردی کے خلاف جدوجہد کے مکمل ہونے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے صدر اردگان نے کہا کہ ترکی کی حیثیت سے ہم بھی اپنی ذمہ داری کے علاقے میں دہشتگردی کے خلاف جدوجہد کے لئے ضروری اقدامات کریں گے۔ ہم دہشت گرد تنظیموں کو علاقے کے اندر بھی اور باہر بھی سکھ کا سانس نہیں لینے دیں گے۔

انہیں دہشتگردی کا کوریڈور بنانے کی اجازت نہیں دیں گے اور اس معاملے میں اپنے عزم پر برقرار رہیں گے۔صدر اردگان نے کہا کہ شام کے موضوع پر امریکہ کو ترکی کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑے گا۔ اس وقت انہوں نے راقہ کو محاصرے میں لیا ہوا ہے دیکھتے ہیں کہ وہاں کیا ہوتا ہے لیکن جو بھی ہو ترکی، شام میں بھی ا ور عراق میں بھی فیلڈ میں ہر حال میں موجود رہے گا۔

فیصلے کرتے وقت بھی ترکی کو باہر نہیں رکھا جائے گا۔ یوں بھی آگے نیٹو سربراہی اجلاس آ رہا ہے، اجلاس کے ایجنڈے کا موضوع بھی دہشت گردی ہو گا اور وہاں بھی ہمیں ان موضوعات پر بات کرنے کا موقع ملے گا۔دہشت گرد تنظیم YPG کو اسلحہ فراہم نہ کرنے سے متعلق روس کے صدر ولادی میر پوٹن کے بیان کے بارے میں بات کرتے ہوئے صدر رجب طیب اردگان نے کہا کہ مسئلہ کردوں کے ساتھ کام کرنا یا نہ کرنا نہیں ہے ۔

اہم چیز، دہشت گرد تنظیم کے ساتھ رابطے میں نہ ہونا ہے۔ جب ہم اپنے اتحادیوں سے کہتے ہیں کہ' آپ انہیں اسلحہ فراہم کر رہے ہیں اور اس بارے میں ہمارے پاس دستاویزات موجود ہیں میزائلوں کی تصاویر موجود ہیں' تو ہمارے اتحادی اس بات کو قبول نہیں کرتے لیکن ہم بھی یہ ثبوت ان کے سامنے رکھنا جاری رکھیں گے۔