قومی اسمبلی میں فاٹا ریفارمز میں تاخیر اورمحمود خان اچکزئی کے بیان اپوزیشن نے شدید ہنگامہ

جمعرات 18 مئی 2017 15:03

قومی اسمبلی میں فاٹا ریفارمز میں تاخیر اورمحمود خان اچکزئی کے بیان ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 18 مئی2017ء) قومی اسمبلی میں فاٹا ریفارمز میں تاخیر اور حکومتی اتحادی محمود خان اچکزئی کے بیان اپوزیشن نے شدید ہنگامہ کیا،اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت فاٹاکی عوام کو لالی پوپ دے رہی ہے ،حکومت ایک طرف بل ایوان میں پیش کرتی ہے اور دوسری طرف اپنے ہی اتحادی سے مخالفت کرواتی ہے، کسی کی'' نو'' اور'' یس'' سے کام نہیں چلے گا، فاٹا پاکستان کا حصہ ہے پاکستان کا قانون اس پر لاگو ہوتاہے،کسی کو پاکستان کا آئین اور قانون پسند نہیں ہے تو ہم کچھ نہیں کرسکتے،حکومت کو فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنا پڑے گا۔

تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ محمود خان اچکزئی نے کبھی بھی پاکستان کو قبول نہیں کیا، انہوں نے ہمیشہ پاکستان کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ دکھائی ۔

(جاری ہے)

وزیر سیفران لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف نے مجھے فاٹا ریفارمز سے متعلق کوئی ہدایت نہیں دی ،حکومت پر فاٹا ریفارمز کے حوالے سے کسی قسم کا دبائو نہیں، فاٹا اصلاحات پر ایک پوائنٹ کے علاوہ حکومت اور اتحادیوں میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے۔

ہم فاٹا ریفارمز اور رواج ایکٹ کے نفاذ میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ بنے ہیں اور نہ ہی کسی کو بننے دیں گے۔ محمود خان اچکزئی کے بیان پر فاٹا سے رکن اسمبلی جذباتی ہو گئے اور ایوان میں ہنگامہ کھڑا کردیا جس پر اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ فاٹا سے متعلق محمود خان اچکزئی کا بیان ذاتی رائے پر مبنی ہے، آپ مجھے مجبور نہ کریں کہ میں آپ کو ایوان سے اٹھا کر باہر پھنکوا دوں،سپیکر نے تحریک انصاف کی رکن شیریں مزاری کو وارننگ دی۔

جمعرات کو قومی اسمبلی میں نقطہ اعتراض پر گفتگو کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ دو دن قبل ایوان میں فاٹا ریفارمز کا بل پیش کیا گیا اس بل پر بحث ہوئی اور حکومت نے یہ ظاہر کیا ہے کہ حکومت اس بل کو لانا چاہتی ہے مگر اب رکن نے کھڑے ہو کر کہا کہ اگر یہ بل پاس ہوا تو سسٹم کو جام کردوں گا۔ اس بل پر ایوان میں ایک واضح تفریق نظر آئی۔

آج میڈیا پر خبریں چل رہی ہیں کہ مذکورہر رکن کی وزیراعظم سے بات ہوگئی ہے اور حکومت رواج ایکٹ بل اور اس سیشن میں موخر کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت فاٹا ریفارمز پر فاٹا کے عوام کو لالی پوپ دے رہی ہے ایک طرف حکومت بل ایوان میں پیش کرتی ہے اور دوسری طرف اپنے ہی اتحادی سے اس کی مخالفت کرواتی ہے۔ حکومت کا یہ رویہ انتہائی غیر سنجیدہ اور تشویشناک ہے۔

تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت کی تشکیل کردہ کمیٹی نے فاٹا ریفارمز کو مرتب کیا اور انہی ریفارمز کو سامنے رکھتے ہوئے بل ایوان میں پیش کیا۔ اس بل کو حکومت کے اتحادی نے مخالفت کی اپوزیشن کو اس بل پر زیادہ مخالفت نہیں ہوگی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سوچی سمجھی سازش تھی۔ بدقسمتی سے حکومتی اتحادی ہی فاٹا ریفارمز کی مخالفت کررہے ہیں حکومت کو اپنے اتحادیوں کو پہلے اعتماد میں لینا چاہئے تھا۔

اس سارے واقعے سے فاٹا کے لوگوں میں اضطراب ہے فاٹا کے لوگ تقسیم ہورہے ہیں اس سے جو فاٹا کے عوام میں تاثر جارہا ہے وہ پاکستان کے لئے بہتر نہیں۔ پشتون نخوا ملی عوامی پارٹی محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ فاٹا میں ایف سی آر 1947 سے پہلے نافذ ہی نہیں کیا گیا تھا،ایف سی آر بلوچستان اور کچھ دیگر علاقوں کے لئے لایا گیا تھا۔ آج جوفاٹا کی بات کررہے ہیں ان کو فاٹا کے بارے میں پتا ہی نہیں ہے۔

جب پاکستان نہیں بنا تھا تو فاٹا کا تعلق وائسرا ئے سے تھا۔ خیبر ایجنسی ڈیورنڈ لائن قائم ہونے سے پہلے قائم ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ قبائلیوں کی مرضی کے بغیر فاٹا ریفارمز نہ کی جائیں۔ فاٹا وہاں کی عوام کا ہے۔ سرتاج عزیز سے میری ملاقات ہوئی مگر انہوں نے جو وعدہ کیا تھا مجھ سے وہ پورا نہیں کیا۔ تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے محمود خان اچکزائی کے بیان پر شدید احتجاج کیا، پشتون خوا عوامی ملی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے بیان پر فاٹا سے رکن اسمبلی آپے سے باہر ہو گئے۔

فاٹا سے رکن اسمبلی شاہ جی گل آفریدی جذباتی ہو گئے اور ایوان میں ہنگامہ کھڑا کردیا جس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ فاٹا سے متعلق محمود خان اچکزئی کا بیان ذاتی رائے پر مبنی ہے، آپ مجھے مجبور نہ کریں کہ میں آپ کو ایوان سے اٹھا کر باہر پھنکوا دوں۔ اس کے علاوہ اسمبلی میں کسی رکن سے متعلق ریمارکس دینے پر اسپیکر سردار ایاز صادق نے تحریک انصاف کی رکن شیریں مزاری کو وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ آپ کسی رکن سے متعلق ریمارکس نہیں دے سکتیں۔

سپیکر ایاز صادق نے شاہ جی گل آفریدی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ 4سال سے رکن اسمبلی ہیں ،اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ فاٹا پاکستان کا حصہ ہے پاکستان کا قانون اس پر لاگو ہوتاہے پاکستان کے قبائلیوں کا حق ہے اگر کسی کو پاکستان کا آئین اور قانون پسند نہیں ہے تو ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ فاٹا کے لوگوں کی ڈیمانڈ ہے کہ ریفارمز کی جائے یہاں کسی کی'' نو'' اور'' یس'' سے کام نہیں چلے گا۔

بل ایوان میں پیش کیا جائے اس پر رائے شماری کرائی جائے پارلیمنٹ پاکستان کے ہر فرد کی نمائندہ ہے۔ یہ کہنا کہ 1935 یا 1936 میں کچھ تھا تو ماضی کا حصہ بن چکا ۔حالات نے تاریخ کو بدلا ہے۔1973 کے آئین کو آپ سب نے ووٹ دیا ہے۔حکومت سنجیدہ ہے تو اپنے اتحادیوں سے بات کرے،بل لاکررائے شماری کر لیں ۔ایک چیز واضح ہے کہ فاٹا پاکستان کا حصہ ہے کسی کی سوچ سے ہمارا متفق ہونا ضروری نہیں،بل روکنے پر میں مذمت کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ایک بات واضح کردوں کہ آپ کو اب فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنا پڑے گا کسی کی سوچ سے ہمارا متفق ہونا ضروری نہیں۔ شاہ محمود قریشی نے محمود خان اچکزئی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو کس نے اختیار دیا ہے کہ ہمیں بتائیں کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط۔آپ پارلیمنٹ کی خود مختاری کی بات کرتے رہے ہیں،آج کیوں نظر انداز کر رہے ہیں بلوچستان کے رکن اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں، اپ نے کبھی بھی پاکستان کو قبول نہیں کیا،اپ نے ہمیشہ پاکستان کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ دکھائی ۔

اس ایوان میں بیٹھے ہر رکن کو اختیار ہے ملک ہر حصے پر بات کر سکے۔ اے این پی کے حاجی غلام احمد بلورنے کہا کہ اس ایوان میں بیٹھے ہر رکن کا اپنا اپنا نکتہ نظرہے اور ہر ایک کی اپنی اپنی سوچ ہے۔ ہم کب تک انگریزوں کے کئے گئے فیصلوں پر بیٹھے رہیں گے۔ اگر فاٹا کے لوگ یہاں بیٹھے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ فاٹا پاکستان کا حصہ ہے۔ اگر فاٹا پاکستان کا حصہ نہیں تو ان کو یہاں سے نکال دیں۔

یہ ایوان فاٹا کے مستقبل کے حوالے سے جو فیصلہ کرے گا اس کو دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا کے لوگوں نے پاکستان کے لئے بہت قربانیاں دی ہیں۔ مگر اس کے باوجود فاٹا اس وقت دہشت گردوںکی جنت ہے۔ فاٹا اصلاحات کے تحت وہاں کے لوگوں کو بنیادی ضروریات میسر ہوں گی اور وہ بھی دیگر پاکستانیوں کی طرح قومی دھارے میں آجائیںگے۔

اس موقع پر پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی نے کہا کہ کوئی مجھے پاکستان کے حوالے سے سمجھانے کی بات نہ کرے پاکستان ایک فیڈریشن اور اس کا ایک آئین ہے جو اس آئین کو نہیں مانتا وہ غدار ہے۔ آئین پاکستان کے چار آرٹیکل فاٹا پر لاگو ہوتے ہیں۔ اگر آپ فاٹا پر آئین کے 280 آرٹیکل لاگو کریں گے تو اس کا ایک باقاعدہ میکانزم بنانا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے چار کے بدلے دو سو اسی آرٹیکل فاٹا کی عوام پر زبردستی تھونپے گئے تو وہ غلط ہوگا جس سے فاٹا کی عوام تقسیم ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اگر فاٹا کی عوام کی مرضی کے بغیر فیصلے کئے گئے اور ان فیصلوں کو فاٹا کی عوام پر مسلط کیا گیا تو پھر جو نتائج نکلیں گے اس کا ذمہ دار پارلیمنٹ ہوگا۔ اس موقع پر وزیر سیفران لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 247میں فاٹا سے متعلق قوانین اور قواعد و ضوابط بنانے کا طریقہ کار دیا گیا ہے۔

تاریخ سے کوئی منہ موڑ نہیں سکتا سرتاج عزیز کی زیر نگرانی آئین کے آرٹیکل 236کے تحت فاٹا ریفارمز تیار کی گئیں فاٹا ریفارمز کو تمام سٹیک ہولڈرز سے شیئر کیا گیا۔ فاٹا ریفارمز کمیٹی کو تین ہزار تجاویز ملیں ہماری سفارشات 36نکات پر مشتمل ہیں اگر حکومت چاہتی تو رواج ایکٹ کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی بجائے وہاں نافذ کرسکتی تھی مگر ہماری جمہوری حکومت ہے اور ہم پارلیمنٹ سے کوئی چیز چھپانا نہیں چاہتے تھے اس لئے رواج ایکٹ کو پارلیمنٹ میں پیش کیا تاکہ اس پر سیر حاصل بحث ہوسکے۔

وفاقی وزیر نے مولانا فضل الرحمن اور وزیراعظم کے مابین ٹیلی فونک گفتگو کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف نے مجھے فاٹا ریفارمز سے متعلق کوئی ہدایت نہیں دی گزشتہ روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سیفران کے ارکان سے ملاقات ہوئی جس میں رواج ایکٹ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی۔ کمیٹی میں اکثریتی ممبران کا موقف تھا کہ رواج ایکٹ سے پہلے فاٹا کو کے پی کے میں ضم کیا جائے۔

وزیر سیفران نے واضح کیا کہ حکومت پر فاٹا ریفارمز کے حوالے سے کسی قسم کا دبائو نہیں۔ ہاں مگر اتحادیوںکو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے فاٹا اصلاحات پر ایک پوائنٹ کے علاوہ حکومت اور اتحادیوں میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے۔ ہم فاٹا ریفارمز اور رواج ایکٹ کے نفاذ میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ بنے ہیں اور نہ ہی کسی کو بننے دیں گے۔