مالی سال 17-2016 کے ابتدائی 10 ماہ کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 200 فیصد تک اضافہ

حکومت نے برآمدات کو بڑھانے کے لیے 100 ارب روپے کے فنڈز مختص کیے تھے تاہم ایکسپورٹرز اس سہولت کو مکمل طور پر فائدہ نہیں اٹھاسکے

جمعرات 18 مئی 2017 16:52

مالی سال 17-2016 کے ابتدائی 10 ماہ کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 200 فیصد ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 18 مئی2017ء) مالی سال 17-2016 کے ابتدائی 10 ماہ کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 200 فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو کہ بیرونی سیکٹر کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2016 سے اپریل 2017 تک ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ کر 7.24 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں یہ ریکارڈ اضافہ اس بات کا اشارہ ہے کہ بیرونی ادائیگیوں کے معاملے پر ایک بحران سر اٹھانے کے لیے تیار ہے۔

عام طور پر جب کسی ملک کی برآمدات کم اور درآمدات کا حجم بڑھ جائے تو بیرونی ادائیگیوں میں عدم توازن پیدا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی بڑھتا رہتا ہے۔یہ امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ رواں مالی سال کے آخر تک کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 9 ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے کیوں کہ ہر ماہ اس میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

(جاری ہے)

اپریل کے مہینے میں بھی جاری کھاتوں کا خسارہ ریکارڈ سطح پر رہا اور 1.13 ارب ڈالر تک پہنچ گیا جبکہ مارچ میں خسارہ 54 کروڑ 60 لاکھ ڈالر تھا۔

چونکہ ملکی برآمدات کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے لہٰذا پالیسی سازوں کو فارن ایکسچینج کے ذخائر کو ملک سے باہر جانے سے روکنا مشکل ہورہا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ واحد حل انٹرنیشنل مارکیٹ اور آئی ایم ایف سے عالمی مالیاتی اداروں سے قرض حاصل کرنا رہ گیا ہے۔10 ماہ کے دوران تجارتی خسارہ 26 ارب ڈالر رہنے کے بعد حکومت کے پاس اس کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ 40 فیصد درآمدات ان مشینری پر مشتمل تھی جن کے استعمال سے بالا آخیربرآمدات میں اضافہ ہوگا۔حکومت نے برآمدات کو بڑھانے کے لیے 100 ارب روپے کے فنڈز مختص کیے تھے تاہم ایکسپورٹرز اس سہولت کو مکمل طور پر فائدہ نہیں اٹھاسکے۔

متعلقہ عنوان :