جب تک تمام سٹیک ہولڈرز ایک پیج پر نہ ہوں تو کوئی بھی پراجیکٹ نہیں چلتا‘ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

ہفتہ 20 مئی 2017 16:31

جب تک تمام سٹیک ہولڈرز ایک پیج پر نہ ہوں تو کوئی بھی پراجیکٹ نہیں چلتا‘ ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 مئی2017ء) چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ جب تک تمام سٹیک ہولڈرز ایک پیج پر نہ ہوں تو کوئی بھی پراجیکٹ نہیں چلتا، 13لاکھ زیر التواء مقدمات کا مسئلہ معاشرے کی ایک بہت تلخ حقیقت ہے ، یہ سارے مقدمے مقدمہ بازی سے نہیں بات کرنے سے حل ہونگے، اگر کاروباری حضرات عدالتوں کے چکر لگاتے لگاتے تھک جائیں گے تو ملک کی معیشت کیسے ٹھیک ہوگی۔

وہ گزشتہ روز پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں اے ڈی آر کا تربیتی کورس مکمل کرنے والے جوڈیشل افسران میں اسناد تقسیم کرنے کیلئے منعقدہ تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر مسٹر جسٹس یاور علی، مسٹر جسٹس مامون رشید شیخ، مسٹر جسٹس شاہد بلال حسن، وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل احسن بھون، چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی حفیظ الرحمان اور دیگر ممبران، وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل ملک عنائت اللہ اعوان، چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی سید عظمت بخاری، صدر لاہور بار ایسوسی ایشن چودھری تنویر اختر، رجسٹرار سید خورشید انور رضوی، ڈی جی ڈسٹرکٹ جوڈیشری محمد اکمل خان، ڈی جی پنجاب جوڈیشل اکیڈمی ماہ رخ عزیز، یورپین یونین کے نمائندے، پنجاب بھر سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز، صدر لاہور چیمبر اینڈ کامرس ڈاکٹر عبدالباسط اور سینئر ایڈووکیٹ ظفر اقبال کلانوری بھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

فاضل چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا کہ آج کا سارا سلسلہ عام آدمی کی کہانی ہے، پورے پنجاب کے عوام کیلئے کی جانے والی کوششیں ہیں۔ پنجاب میں 1700 ججز کے پاس 13 لاکھ مقدمات زیر التواء ہیں لیکن ایسا کون سا کمپیوٹر سسٹم لے آئوں کہ یہ مقدمات کو ختم کردیں۔ زیر التواء مقدمات کا مسئلہ اس معاشرے کی ایک بہت تلخ حقیقت ہے ۔ یہ سارے مقدمے مقدمہ بازی سے نہیں بات کرنے سے حل ہونگے۔

اگر کاروباری حضرات عدالتوں کے چکر لگاتے لگاتے تھک جائیں گے تو ملک کی معیشت کیسے ٹھیک ہوگی۔ عوام وکلاء سب ہم سے گلہ کرتے ہیں کہ سالہاسال سے مقدمات حل نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ آئیں ان تمام زیرالتواء مقدمات کو مصالحت سے حل کریں، سالہاسال سے زیر التواء مقدمات کو دو تین گھنٹوں میں حل کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مصالحتی نظام کا اقدام منصور علی شاہ کا نہیں ہے لاہور ہائی کورٹ کا ہے، افراد معنی نہیں رکھتے ادارے افضل ہوتے ہیں، سید منصور علی شاہ تو پس منظر میں ہے اصل کام تو ٹیم کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب تک تمام سٹیک ہولڈرز ایک پیج پر نہ ہوں تو کوئی بھی پراجیکٹ نہیں چلتا، میری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں ایک پروفیشنل بار لیڈر شپ میسر ہے اور انکا بھرپور تعاون شامل حال ہے۔ فاضل چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میڈی ایشن کو چلانے کے لئے مائنڈ سیٹ اور کلچرل چینج کی ضرورت ہے، میڈی ایشن سنٹرز کا ماحول ہی مختلف ہے، جہاں سائلین کو چائے اور بسکٹ کے انکے مسائل کو حل دیا جاتا ہے۔

میڈیا کے بھی بہت مشکور ہیں کہ انہوں نے ہمارے اس کام کو عام عوام تک پہنچایا، ہم سوشل میڈیا کے ذریعے بھی لوگوں کو اے ڈی آر کی افادیت کے متعلق آگاہ کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب جوڈیشل اکیڈمی صرف ججز کے لئے ہی نہیں ہے، وکلاء کے بھی ہے، بار لیڈر شپ ہمیں اپنا پلان دیں ہم کورس کروانے کیلئے تیار ہیں، ہماری طاقت علم اور ریسرچ ہے اور کوئی دوسری سرگرمیاں نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری عدلیہ سے 50 فیصد سے زائد مقدمہ بازی اے ڈی آر کے ذریعے حل ہوجائے اور ہم اس میں ضرور کامیاب ہوں گے۔قبل ازیں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل احسن بھون نے کہا کہ نظام انصاف کو مقصد ہی سائلین کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی ہے، چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے اس مقصد کو حقیقی معنوں میں سمجھا اور اے ڈی آر سسٹم جیسا انقلابی اقدام کیا، وکلاء اس نظام کی کامیابی کیلئے اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرواتے ہیں۔

چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی سید عظمت بخاری کا کہنا تھا کہ اس سے قبل بنچ اور بار میں ایسی ہم آہنگی کبھی نہیں دیکھی، چیف جسٹس سید منصور علی شاہ کے تمام اقداماے کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ صدر لاہور بار ایسوسی ایشن چودھری تنویر اختر کا کہنا تھا کہ اے ڈی آر کا نظام گیم چینجر ثابت ہو رہا ہے اور وکلاء کا مکمل تعاون اس کے ساتھ رہے گا اور ہم اس نظام کو بہت آگے لے کر جائیں گے۔

ظفر اقبال کلانوری ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ سروے کہتے ہیں کہ اگر ہم دقیانوسی اور روائتی انداز میں ہی چلیں تو پاکستان کے حالیہ زیر التواء مقدمات کو نمٹانے کیلئے 320 سال کا عرصہ درکار ہے، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاہور عابد حسین قریشی نے بتایا کہ گزشتہ دو ماہ میں 178 مقدمات لاہور کے مصالحتی مرکز کو بھیجے گئے اور اس قلیل عرصہ میں 122 مقدمات میں کامیابی سے میڈی ایشن کروائی گئی جسکا تناسب 85 فیصد سے زائد بنتا ہے۔ تقریب سے مسٹر جسٹس شاہد بلال حسن اور ڈی جی اکیڈمی ماہ رخ عزیز نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ تقریب کے اختتام پر چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے فاضل جج صاحبان کے ہمراہ کامیابی سے تربیتی کورس مکمل کرنے والی61 میڈی ایٹرز میں اسناد بھی تقسیم کیں۔