پنجاب میں 1700 ججز کے پاس 13 لاکھ مقدمات زیر التواء ہیں‘ ایسا کون سا کمپیوٹر سسٹم لے آئیں کہ یہ مقدمات ختم ہو جائیں‘میڈی ایشن کو چلانے کیلئے مائنڈ سیٹ اور کلچرل چینج کی ضرورت ہے، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ کا تقریب سے خطاب

ہفتہ 20 مئی 2017 17:04

پنجاب میں 1700 ججز کے پاس 13 لاکھ مقدمات زیر التواء ہیں‘ ایسا کون سا کمپیوٹر ..
لاہور۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 مئی2017ء) چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ پنجاب میں 1700 ججز کے پاس 13 لاکھ مقدمات زیر التواء ہیں لیکن ایسا کون سا کمپیوٹر سسٹم لے آئیں کہ یہ مقدمات ختم ہو جائیں، زیر التوا مقدمات کا مسئلہ اس معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے۔ ہفتہ کو پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں اے ڈی آر کا تربیتی کورس کرنے والے جوڈیشل افسران میں تقسیم اسناد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ یہ سارے مقدمے محض مقدمہ بازی سے نہیں بات کرنے سے حل ہونگے، اگر کاروباری حضرات عدالتوں کے چکر لگاتے لگاتے تھک جائیں گے تو ملک کی معیشت کیسے ٹھیک ہوگی، عوام اور وکلاء سمیت سب لوگ ہم سے گلہ کرتے ہیں کہ سالہاسال مقدمات حل نہیں ہوتے، انہوں نے کہا کہ آئیں ان تمام زیرالتواء مقدمات کو مصالحت سے حل کریں، ان کا کہنا تھا کہ یہ مصالحتی نظام کا اقدام منصور علی شاہ کا نہیں بلکہ لاہور ہائی کورٹ کا ہے، افراد معنی نہیں رکھتے ادارے افضل ہوتے ہیں، سید منصور علی شاہ تو پس منظر میں ہے اصل کام تو ٹیم کر رہی ہے، انہوں نے کہا کہ جب تک تمام سٹیک ہولڈرز ایک پیج پر نہ ہوں کوئی بھی پراجیکٹ نہیں چلتا، میری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں ایک پروفیشنل بار لیڈر شپ میسر ہے اور انکا بھرپور تعاون شامل حال ہے، فاضل چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میڈی ایشن کو چلانے کیلئے مائنڈ سیٹ اور کلچرل چینج کی ضرورت ہے، میڈی ایشن سنٹرز کا ماحول ہی مختلف ہے جہاں چائے اور بسکٹ سے سائلین کے مسائل کو حل کیا جاتا ہے، انہوں نے کہا کہ میڈیا کے بھی بہت مشکور ہیں کہ انہوں نے ہمارے اس کام کو عوام تک پہنچایا، ہم سوشل میڈیا کے ذریعے بھی لوگوں کو اے ڈی آرکی افادیت کے متعلق آگاہ کریں گے، ان کا کہنا تھا کہ پنجاب جوڈیشل اکیڈمی صرف ججز کے لئے ہی نہیں وکلاء کی بھی ہے، بار لیڈر شپ ہمیں اپنا پلان دیں ہم کورس کروانے کیلئے تیار ہیں، ہماری طاقت علم اور ریسرچ ہے اور کوئی دوسری سرگرمیاں نہیں، ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری عدلیہ سے 50 فیصد سے زائد مقدمہ بازی اے ڈی آر کے ذریعے حل ہوجائے اور ہم اس میں ضرور کامیاب ہوں گے۔

(جاری ہے)

اس موقع پر جسٹس یاور علی، جسٹس مامون رشید شیخ، جسٹس شاہد بلال حسن، وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل احسن بھون، چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی حفیظ الرحمان ، وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل ملک عنائت اللہ اعوان، چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی سید عظمت بخاری، صدر لاہور بار ایسوسی ایشن چودھری تنویر اختر، رجسٹرار سید خورشید انور رضوی، ڈی جی ڈسٹرکٹ جوڈیشری محمد اکمل خان، ڈی جی پنجاب جوڈیشل اکیڈمی ماہ رخ عزیز، یورپین یونین کے نمائندے، پنجاب بھر سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز، صدر لاہور چیمبرآف کامرس ڈاکٹر عبدالباسط اور سینئر ایڈووکیٹ ظفر اقبال کلانوری بھی موجود تھے۔

قبل ازیں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل احسن بھون نے کہا کہ نظام انصاف کا مقصد ہی سائلین کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی ہے، چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے اس مقصد کو حقیقی معنوں میں سمجھا اور مصالحتی سسٹم جیسا انقلابی اقدام کیا، وکلاء اس نظام کی کامیابی کیلئے اپنے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرواتے ہیں، چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی سید عظمت بخاری نے کہا کہ اس سے قبل بنچ اور بار میں ایسی ہم آہنگی کبھی نہیں دیکھی، چیف جسٹس سید منصور علی شاہ کے تمام اقدامات کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، صدر لاہور بار ایسوسی ایشن چودھری تنویر اختر نے کہا کہ مصالحتی سینٹر زکا نظام گیم چینجر ثابت ہو رہا ہے اور وکلاء کا مکمل تعاون اس کے ساتھ رہے گا اور ہم اس نظام کو بہت آگے لے کر جائیں گے، ظفر اقبال کلانوری ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ سروے کہتے ہیں کہ اگر ہم دقیانوسی اور روائتی انداز میں ہی چلیں تو پاکستان کے حالیہ زیر التواء مقدمات کو نمٹانے کیلئے 320 سال کا عرصہ درکار ہے، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاہور عابد حسین قریشی نے بتایا کہ گزشتہ دو ماہ میں 178 مقدمات لاہور کے مصالحتی مرکز کو بھیجے گئے اور اس قلیل عرصہ میں 122 مقدمات میں کامیابی سے میڈی ایشن کروائی گئی جسکا تناسب 85 فیصد سے زائد بنتا ہے، تقریب سے جسٹس شاہد بلال حسن اور ڈی جی اکیڈمی ماہ رخ عزیز نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا، تقریب کے اختتام پر چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے فاضل جج صاحبان کے ہمراہ کامیابی سے تربیتی کورس مکمل کرنے والی61 میڈی ایٹرز میں اسناد تقسیم کیں۔

متعلقہ عنوان :