قومی سطح پر زرعی یونیورسٹی کو رول ماڈل ادارے کے طور پر دیکھا جارہا ہے، ڈاکٹر اقرار احمد خان

سکڑتے ہوئے آبی و زمینی وسائل ‘موسمیاتی تبدیلیوں اور بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت کے مقابلے میں عالمی سطح پر اجناس کی کم ہوتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے زراعت سے وابستہ افراد اور زرعی معیشت کی حامل حکومتیں شدید مالیاتی دبائو کا شکار ہیں، وائس چانسلر فیصل آباد زرعی یونیورسٹی

ہفتہ 20 مئی 2017 19:33

فیصل آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 مئی2017ء) قومی سطح پر زرعی یونیورسٹی کو رول ماڈل ادارے کے طور پر دیکھا جارہا ہے یہی وجہ ہے کہ دو روز قبل جی ایچ کیو میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سربراہی میں منعقدہونیوالے سیمینار میں چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر مختار احمد نے ملک کی تمام جامعات کے وائس چانسلرزکی موجودگی میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کو تمام کوالٹی پیرامیٹرزپر مسلسل آگے بڑھتی ہوئی جامعہ قرار دیاہے جو ہمار ے لئے باعث فخر اور ایک نیا چیلنج ہے ،سکڑتے ہوئے آبی و زمینی وسائل ‘موسمیاتی تبدیلیوں اور بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت کے مقابلے میں عالمی سطح پر اجناس کی کم ہوتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے زراعت سے وابستہ افراد اور زرعی معیشت کی حامل حکومتیں شدید مالیاتی دبائو کا شکار ہیں یہی وجہ ہے کہ حکومت کو ایک من گندم کی امدادی قیمت کے ساتھ ساتھ اس کی سٹوریج‘ بینکوں کے سوداور دوسرے اخراجات کیلئے فی من 1500روپے سے زائد خرچ کرنا پڑتے ہیں۔

(جاری ہے)

آن لائن کے مطابق یہ باتیں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے عارضی وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹراقراراحمد خاں نے پاک امریکہ مرکز اعلیٰ تعلیم و تحقیق برائے خوراک و زراعت کی اڑھائی سالہ کارکردگی پر منعقدہ پریس بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ مقامی ہوٹل میں میں ہونے والی تقریب میں ڈاکٹراقراراحمد خاں نے کہا کہ زراعت میں سارا نظام زرعی مداخل کے گرد گھومتا ہے لیکن بدقسمتی سے کسانوں میں فصل کی عین ضرورت کا ادراک اور ٹیکنالوجی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے زرعی مداخل کا غیرمتوازن استعمال سالانہ اربوں روپے کے ضیاع کا باعث بن رہا ہے جسے جدید ٹیکنالوجی کو رواج دے کر بچانے کی راہ ہموار کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک دہائی سے حکومتی ادارے ٹھوس تحقیقی شواہد کی حامل قابل عمل تجاویز کو سنجیدگی سے زیرغور لارہے ہیں اور مرکز اعلیٰ تعلیم وتحقیق برائے خوراک و زراعت کے توسط سے حکومت کی زرعی و معاشی پالیسیوں میں مزید بہتری لائی جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ ملک میں استعمال ہونے والے ہارویسٹرزاپنی طبعی عمر مکمل کر چکے ہیں اور ان کا مزید استعمال کھیت کی سطح پر زرعی اجناس کے ضیاع کا باعث بن رہا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ ملک میں یا تو ان کی ریورس انجینئرنگ سے ان کے جملہ مسائل کا خاتمہ کیا جائے یا نئے ہارویسٹرزمیدان عمل میں اُتارے جائیں۔

ڈاکٹر اقراراحمد خاں نے نے کہاکہ زرعی اجناس کا بیشتر حصہ ہارویسٹنگ‘سٹوریج‘ ہینڈلنگ اور ٹرانسپورٹیشن کی نامناسب سہولیات کی وجہ سے کھیت اور صارف کے درمیانی مراحل میں ضائع ہوجاتا ہے اور وہ توقع رکھتے ہیں کہ سینٹر میں قابل بھروسہ تحقیقاتی شماریات کے نتیجہ میں پوسٹ ہارویسٹ نقصانات کی شرح کو کم کرنے کیلئے اہم پیش رفت ہوگی۔انہوں نے کہا کہ امسال حکومت کی طرف سے ڈی اے پی اور یوریا کھادوں کی کم قیمت میں دستیابی یقینی بنانے سے گندم کی پیداوار میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جس سے کسان کی آمدنی بڑھانے میں مدد ملے گی۔

انہوں نے بتایا کہ پاک امریکہ مرکز اعلیٰ تعلیم برائے خوراک و زراعت کے ذریعے نہ صرف ویٹرنری سائنس کے نصاب میں یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کی طرز پر نئی تبدیلیاں لائی گئی ہیں بلکہ سیڈ سائنس و ٹیکنالوجی‘ کلائمیٹ چینج اور نیوٹریشن کے تین نئے ڈگری پروگرام بھی شروع کئے گئے ہیںتاکہ زراعت کو حقیقی معنوں میں درپیش مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ غذائی کمی کے خاتمہ کیلئے ہمیں محض آٹا‘ دال اور چینی پر اکتفاکرنے کے بجائے انسانی خوراک کو متنوع بنانے کی ضرورت ہے تاکہ تمام ضروری اجزاء کی فراہمی یقینی بناکر ایک صحت مند اور توانا نسل پروان چڑھائی جا سکے۔انہوں نے بتایا کہ سینٹر میں اب تک 60سے زائد نوجوان یونیورسٹی آف کیلی فورنیا امریکہ کا دورہ مکمل کر چکے ہیں جبکہ مزیداُمیدواروں کی درخواستیں زیرغور ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر اقرار نے بتایا کہ انہوں نے سینٹر کے ذریعے صوبے کے مختلف علاقوں میں تمام سٹیک ہولڈرز پر مشتمل مشاورتی اجلاسوں میں سامنے آنے والے مسائل اور ان کے ترجیحی حل کو سفارشات کی شکل دے کر صوبائی سطح پر زرعی پالیسی کا حصہ بنادیا ہے اور توقع رکھتے ہیں کہ ان پر عملدرآمد سے پائیدار زرعی و دیہی ترقی وقوع پذیر ہوگی۔انہوں نے انکشاف کیا کہ کمیشنڈ ریسرچ کے دوسرے مرحلے میں 300سے زائد تحقیقی تجاویز میں سے نقد و نظر کے بعد صرف 13کو شارٹ لسٹ کیاگیاجنہیں ماہرین کی سفارش پر فنڈنگ کیلئے منظور کیا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ سینٹر کی نئی عمارت کی تعمیرمکمل ہوچکی ہے جس میں 16تحقیقاتی لیبارٹریاں‘ کانفرنس رومز‘ آڈیٹوریم اور جدید ترین لائبریری شامل ہے جہاں تحقیقی اُمور انجام دینے والے نوجوانوں کو ترقی یافتہ ممالک جیساماحول فراہم کر دیا گیا ہی

متعلقہ عنوان :