افغانستان ، طالبان کے سیکیورٹی چیک پوسٹوں پر حملے ، 20 پولیس اہلکار ہلاک،15زخمی

طالبان جنگجوئو ں نے زابل کے ضلع شاہ جوئے میں متعدد چیک پوسٹس پر ہلکے و بھاری ہتھیاروں سے حملہ کیا،حکام سیکورٹی فورسز کے آپریشن میں داعش اور طالبان کے 60شدت پسند ہلاک ، 12زخمی کابل میں مسلح افراد کے حملے میں جرمن خاتون اور افغان محافظ ہلاک،حملہ آوروں نے فن لینڈ کی خاتون کواغواء کرلیا افغان نائب صدر عبدالرشید دوستم کے ترکی جانے سے متعلق قیاس آرائیاں ،ترجمان کی تردید دوستم طبی معائنے کے بعد ترکی سے واپس لوٹ آئیں گے،ایسی تمام خبریں غلط ہیں کہ نائب صدر ترکی میں جلا وطنی کی زندگی گزرایں گے اور انہوں نے سیاست کو بھی خیرباد کہہ دیا ہے،ترجمان حامد کرزئی سے گلبدین حکمت یار کی ملاقات ،ملک کی موجود ہ صورتحال اورامن کی کوششوں پر تبادلہ خیال

اتوار 21 مئی 2017 23:40

ابل(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 21 مئی2017ء) افغانستان میں طالبان کے سیکیورٹی چیک پوسٹوں پر حملوں میں 20 پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے جبکہ سیکورٹی فورسز کے آپریشن میں داعش اور طالبان کے 60شدت پسند ہلاک اور 12زخمی ہوگئے ،ادھر دارالحکومت کابل میں نامعلوم مسلح افراد نے جرمن خاتون امدادی کارکن اور انکے افغان محافظ کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا جبکہ فن لینڈ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئے، نائب صدر عبدالرشید دوستم کی ترکی روانگی کے حوالے سے چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں تاہم انکے ترجمان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ نائب صدر ترکی میں جلا وطنی کی زندگی گزرایں گے اور انہوں نے سیاست کو بھی خیرباد کہہ دیا ہے،دوسری جانب سابق صدر حامد کرزئی سے انکی رہائش گاہ پر حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے ملاقات کی جس میں ملک کی موجود ہ صورتحال ،امن کی کوششوں اور اسکی ملک کیلئے اہمیت کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔

(جاری ہے)

اتوار کو افغان میڈیا کے مطابق جنوبی صوبے زابل میں طالبان جنگجوئوں کے مختلف سیکیورٹی چیک پوسٹوں پر حملوں میں 20 پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے۔ صوبائی گورنر بسم اللہ افغانمل نے بتایا کہ اتوار کی صبح طالبان کے جنگجوں نے زابل کے ضلع شاہ جوئے میں متعدد چیک پوسٹس پر ہلکے و بھاری ہتھیاروں سے حملہ کیا۔انہوں نے تصدیق کی کہ حملے کے نتیجے میں 20 پولیس اہلکار ہلاک ہوئے جبکہ ایک ضلعی عہدے دار نے بتایا کہ حملے میں 15 پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔

افغان طالبان نے اپنی ویب سائٹ پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعوی کیا ہے۔خیال رہے کہ افغان طالبان نے گزشتہ ماہ اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ موسم بہار کے حملوں کا آغاز کرنے والے ہیں جس کے دوران حملوں کا سلسلہ تیز کردیا جائے گا۔رواں ماہ 9 مئی کو افغانستان کے شمالی صوبے پروان میں ایک مدرسے میں ہونے والے بم دھماکے کے نتیجے میں پروان علما کونسل کے سرابرہ مولوی عبدالرحیم حنفی جاں بحق اور 4 طلبہ زخمی ہوگئے تھے۔

اس سے قبل گزشتہ ماہ شمالی صوبے بلخ میں طالبان کے حملے میں 135 سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے جوکہ کسی افغان فوجی اڈے پر طالبان کا بدترین دہشت گرد حملہ تھا۔اس حملے کے بعد امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ افغانستان میں سیکیورٹی فورسز کو ایک اور مشکل سال کا سامنا کرنا پڑے گا۔حال ہی میں امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے وائٹ ہاس سے درخواست کی ہے کہ طالبان کے خلاف جنگ میں آنے والے تعطل کو ختم کرنے کے لیے مزید ہزاروں امریکی فوجی افغانستان بھیجے جائیں۔

اس وقت افغانستان میں 8400 امریکی فوجی جبکہ 5000 نیٹو اہلکار موجود ہیں جبکہ چھ برس قبل تک افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ادھر جنوبی صوبہ ارزگان میں طالبان کے ٹھکانو ں پر فضائی حملے میں 53شدت پسند ہلاک ہوگئے ۔وزارت دفاع کے بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان جنگجوئوں کو صوبائی دارالحکومت ترین کوٹ میں نشانہ بنایا گیا۔

فضائی کاروائی ترینکوٹ شہر کے علاقے شاہ منصوری میں کی گئی جس میں 53شدت پسند مارے گئے جبکہ شدت پسند وں کی جانب سے اس حوالے سے کوئی بھی بیان سامنے نہیں آیا ہے ۔گزشتہ ماہ ترین کوٹ شہر کے قریب فضائی کاروائی میں 25شدت پسند ہلاک ہوگئے تھے جبکہ انکی ایک دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی بھی تباہ کردی گئی تھی ۔مشرقی صوبہ ننگرہا رمیں سیکورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران داعش کے 7جنگجو ہلاک اور 12زخمی ہوگئے ۔

صوبائی پولیس کمانڈنٹ کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24گھنٹوں میں ضلع چھرپار میں آپریشن کے دوران شدت پسندوں کو ہلاک کیا گیا۔ادھر دارالحکومت کابل میں نامعلوم مسلح افراد نے ایک جرمن خاتون امدادی کارکن اور ان کے افغان محافظ کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا اور فن لینڈ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔افغان وزارت داخلہ کے مطابق واقعہ ہفتہ کو دیر گئے دارالامان روڈ پر ایک گیسٹ ہاس کے باہر پیش آیا۔

یہاں سویڈن کی ایک غیر سرکاری امدادی تنظیم "آپریشن مرسی" کے کارکنان قیام پذیر ہیں۔وزارت کے ترجمان نجیب دانش کا کہنا ہے کہ ایک تیسرے غیر ملکی کو مسلح افراد سے بچا لیا گیا اور واقعے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔غیر سرکاری تنظیم کی طرف سے تاحال اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے اور نہ ہی فی الوقت کسی فرد یا گروہ نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

کابل میں اغوا برائے تاوان کے واقعات افغان حکام کے لیے ایک چیلنج رہے ہیں اور اسی وجہ سے غیر ملکی شہری یہاں آزادانہ نقل و حرکت سے گریزاں رہتے ہیں۔دریں اثنا طالبان عسکریت پسندوں نے جنوبی صوبہ زابل میں کم از کم 20 پولیس اہلکاروں کو ہلاک اور لگ بھگ ایک درجن کو زخمی کر دیا ہے۔صوبائی گورنر بسم اللہ افغانمل نے بتایا کہ عسکریت پسندوں نے دو اضلاع میں سکیورٹی کی چوکیوں پر حملہ کیا۔

ان کے بقول حملہ آوروں کا بھی بڑا جانی نقصان ہوا لیکن انھوں نے اس کی تفصیل فراہم نہیں کی۔گورنر کا کہنا تھا کہ علاقے میں اب بھی لڑائی جاری ہے۔ سکیورٹی حکام نے تصدیق کی ہے کہ طالبان نے متعدد چوکیوں پر قبضہ کر لیا ہے۔لڑائی کا یہ علاقہ کابل کو جنوبی شہر قندھار سے ملانے والی مرکزی شاہراہ پر واقع ہے۔افغانستان کے نائب صدر عبدالرشید دوستم کی ترکی روانگی کے حوالے سے چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں تاہم انکے ترجمان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ نائب صدر ترکی میں جلا وطنی کی زندگی گزرایں گے اور انہوں نے سیاست کو بھی خیرباد کہہ دیا ہے۔

دوستم کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ طبی معائنے کے بعد ترکی سے واپس لوٹ آئیں گے۔ ترجمان نے تاہم ایسی خبروں کی تردید کی کہ نائب صدر ترکی میں جلا وطنی کی زندگی گزرایں گے اور انہوں نے سیاست کو بھی خیرباد کہہ دیا ہے۔ 63 سالہ دوستم پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے محافظوں سے اپنے ایک حریف کو اغوا کروانے کے بعد اس پر تشدد اور اس کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کا حکم دیا تھا۔

شبہ ہے کہ انہی الزامات کے باعث دوستم فرار ہو کر ترکی گئے ہیں۔دوسری جانب سابق صدر حامد کرزئی سے انکی رہائش گاہ پر حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے ملاقات کی۔سابق صدر کے دفتر کی طرف سے جاری بیا ن میں کہا گیا ہے کہ گلبدین حکمت یار کے علاوہ کئی دیگر سرکاری حکام اور سیاسی شخصیات نے بھی سابق صدر حامد کرزئی کی رہائش گاہ پر ہونے والے اجتماع میں شرکت کی۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پارٹی کے شرکاء نے ملک کے موجود ہ صورتحال ،امن کی کوششوں اور اسکی ملک کیلئے اہمیت کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔حکمت یار رواں ماہ کے اوائل میں جلال آباد سے کابل پہنچے تھے ۔