سوٹ پہن کر کسی سازش کا حصہ نہیں بنے ،خواہش ہے حکومت اپنی مدت پوری کرے ،سید خورشید احمد شاہ

پیر 22 مئی 2017 17:00

سوٹ پہن کر کسی سازش کا حصہ نہیں بنے ،خواہش ہے حکومت اپنی مدت پوری کرے ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 مئی2017ء) پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ہم کالا سوٹ پہن کر کسی سازش کا حصہ نہیں بنے۔ ہماری خواہش ہے کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے ملک پیچھے جائے گا۔ ہم پاناما کیس میں حکومت کے خلاف سپریم کورٹ میں نہیں گئے لیکن حکومت نے خود اپنی داڑھی دوسروں کے ہاتھ میں دی اور پھر جو بھی ہوا اچھا ہوا۔

ایک رہنما خود کو شیر اور دوسرا خود کو سونامی کہتا ہے پتہ نہیں یہ کون سی تباہی لے کر آرہے ہیں۔ادارے اور جمہوریت مستحکم کرنے سے ملک ترقی کرے گا ۔لوگ ڈی جی رینجرز اور آئی جی کے نعرے لگاتے ہیں ۔ہمیں شخصیات کی نہیں حکومت اور اداروں کی بات کرنی چاہئے ۔

(جاری ہے)

خیبرپختونخوا،بلوچستان اور سندھ والوں کو بجلی چور کہا جارہا ہے ۔جبکہ لاہور میںسندھ سے زیادہ بجلی کی چوری کی جارہی ہے ۔

اگر اس طرح نفرت پھیلائے جائے گی تو پھر سندھ بھی گیس چوری کا الزام لگانے اور گیس بند کرنے کی بات کرنے کا حق رکھتا ہے ۔کراچی میں پانی کی قلت کا مسئلہ بڑا سنگین ہوتا جارہا ہے ۔شہر میں پانی صاف کرنے کے لیے فلٹر پلانٹ لگنے چاہئیں ۔ان خیالات کا اظہار انہوںنے پیر کو وفاقی ایوان ہائے صنعت و تجارت (ایف پی سی سی آئی)میں تاجروں اور صنعتکاروں سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

اس موقع پر ایف پی سی سی آئی کے صدر زبیر طفیل نے بھی خطاب کیا ۔سید خورشید شاہ نے کہا کہ کسی بھی مسئلے کے حل کے لئے مشاورت یا مذاکرات میں جذبات میں آنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ سنجیدہ گفتگو کے ذریعے اپنے نکتہ نظر پر قائل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ اپنے موقف کے اظہار کے لئے پاکستان میں پارلیمنٹ موجود ہے۔انہوںنے کہا کہ ہمارے خلاف سازشیں کی گئیں، ہم پر گالم گلوچ، تنقید اور ہمارے خلاف سازشیں کی گئیں لیکن ہم ہرجگہ ثابت قدم رہے اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے، پوری دنیا نے دیکھا کہ پاکستان کی 66 سالہ تاریخ میں اقتدارکی منتقلی پروقار طریقے سے ہوئی، ایک وزیر اعظم اپنی گاڑی سے جھنڈا اتار کر جارہا تھا تو دوسری جانب نومنتخب پرائم منسٹر جھنڈے سمیت اپنا منصب سنبھالنے آرہا تھا۔

انہوںنے کہا کہ نوازشریف جب بھی کسی ادارے کے چنگل میں پھنسے تو وہ بہترین کالا سوٹ اور لال ٹائی پہن کر عدالتوں میں چلے جاتے ہیں لیکن اقتدار کی کرسی کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں، ہم کالا سوٹ پہن کر کسی بھی سازش کا حصہ نہیں بنے ہم ہرسازش کے خلاف میدان میں کھڑے رہے اسی وجہ سے موجودہ حکومت نے اپنے اقتدار کے 4 سال پورے کئے۔اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ ہماری کوشش ہے یہ حکومت اپنے 5 سال پورے کرے اسی لئے ہم پاناما کیس میں بھی حکومت کے خلاف سپریم کورٹ نہیں گئے ہم چاہتے تھے کہ تمام مسئلے پارلیمنٹ کے اندر حل کئے جائیں، چاہے اس کے لئے آئین میں تبدیلی کرنی پڑے اور اختیارات پارلیمنٹ کے سپرد کئے جائیں لیکن عدالت میں کیس نہ لے جایا جائے لیکن ہماری توقعات کے برعکس حکومت نے اپنی داڑھی خود دوسروں کے ہاتھ میں دے دی اور پھر جو بھی ہوا وہ اچھا ہوا۔

انہوںنے کہا کہ سپریم کورٹ نہ جانے کے فیصلے پر ہم پر دیگر جماعتوں کی جانب سے تنقید بھی کی گئی لیکن ہم اس بات پر مصر رہے کہ پارلیمنٹ ہی پاکستان کا سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے فیصلہ یہیں ہونا چاہئے۔قائد حزب اختلاف نے مزید کہا کہ ہم آج بھی کہتے ہیں کہ حکومت چلنی چاہئے اور اگر ایک دو چہرے تبدیل بھی ہوجائیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن نواز شریف اقتدار کی کرسی چھوڑنے کو تیار نہیں، شخصیات سے ہٹ کر فیصلے کریں گے تو مثبت چیزیں سامنے آئیں گی، ہمارے دور میں بھی جب کہ یوسف رضا گیلانی کا کوئی قصور بھی نہیں تھا لیکن جب وہ گئے توہماری ہی پارٹی کے راجہ پرویز اشرف نے وزیراعظم کا منصب سنبھال لیا، چہرے بدلنے سے ادارہ وہی رہا اور جمہوریت بھی رواں دواں رہی اور اگر ہم ضد کرتے، عدلیہ کے سامنے کھڑے ہوجاتے اور ججوں پر تنقید کرتے، انہیں ماضی کی طرح جوتے مارتے اور انہیں بھگا دیتے تو اس کا نتیجہ یہی نکلتا میرے عزیز ہم وطنوں، اور سب ختم لیکن ہم نے لڑائی نہیں کی۔

خورشید شاہ نے کہا اب بھی وقت ہے آج 70 سال کے بعد ہی صحیح لیکن ہمیں اپنے بچوں کو ایک بہتر پاکستان بنا کر دینے کی ضرورت ہے، میں سب سے کہتا ہوں کہ لڑائیوں کو پس پشت ڈال کر پاکستان پر بھی دھیان دیں ہمارا ملک اس نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں سے اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں بچا۔ میڈیا کو چاہئے کہ وہ سیاسی رہنماں کو ٹاک شوز میں بٹھا کر لڑائی کروانے کے بجائے مسائل کی نشاندہی اور ان کا حل طلب کرے لیکن یہاں لوگ بھی گالم گلوچ اور زور سے بولنے پر خوش ہوتے ہیں ایک رہنما خود کو شیر اور دوسرا خود کو سونامی کہتا ہے پتہ نہیں یہ کون سی تباہی لے کر آرہے ہیں۔

انہوںنے کہا کہ تین مہینے میں لوڈشیڈنگ ختم نہ کرپانے پر نام تبدیل کرنے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ۔اب لوگ ان کا نیانام تلاش کررہے ہیں ۔2010 میں ایک ادارے نے ایل این جی کی درآمد کو روک کر ملک کو اربوں کا نقصان پہنچایا ۔ایل این جی اس وقت ملک میں آجاتی تو یہ صورتحال نہ ہوتی ۔پیپلزپارٹی کی حکومت میں بجلی کی قیمتیں کم تھیں۔اس وقت گردشی قرضہ 430 ارب روپے تک جاپہنچا ہے ۔

خیبرپختونخوا،بلوچستان اور سندھ والوں کو بجلی چور کہا جارہا ہے ۔جبکہ لاہور میںسندھ سے زیادہ بجلی کی چوری کی جارہی ہے ۔اگر اس طرح نفرت پھیلائے جائے گی تو پھر سندھ بھی گیس چوری کا الزام لگانے اور گیس بند کرنے کی بات کرنے کا حق رکھتا ہے ۔کراچی میں پانی کی قلت کا مسئلہ بڑا سنگین ہوتا جارہا ہے ۔شہر میں پانی صاف کرنے کے لیے فلٹر پلانٹ لگنے چاہئیں ۔

انہوںنے کہا کہ اپنے ورکرز کو ویج ایوارڈ نہ دینے والے ارکان صوبائی اسمبلی کی تنخواہ بڑھانے پر چڑھ دوڑے ہیں ۔اس موقع پر ایف پی سی سی آئی کے صدر زبیر طفیل نے کہا کہ اپوزیشن چاہتی تو موجودہ حکومت شدید مشکلات کا شکار ہوسکتی تھی ۔ پیپلز پارٹی نے حکومت کو ڈی ریل نہ کر کے سیاست نہیں کی بلکہ جمہوریت کو بچایاہے ۔انہوںنے کہا کہ ہمیں اپنے مسائل کا کوئی حل ہوتا نظر نہیں آ رہاہے ۔

ایف بی آر کا رویہ نہایت نامناسب ہے طویل عرصے سے ریفنڈ جاری نہیں کیے گئے۔ یم بجٹ تجاویز وزارت خزانہ کو دے تو دی ہیں لیکن ہمیں کوئی اچھی توقعات وابستہ نہیں ہیں ۔ سیلز ٹیکس کم کرنے کی درخواست کی ہے جس سے سب کو فائدہ ہو گا۔انہوںنے کہا کہ صحت اور تعلیم صوبائی اختیار میں ہیلیکن تعلیم اور صحت کا مختص بجٹ خرچ ہوتا نظر نہیں آتاہے ۔ سندھ حکومت بنیادی سہولیات فراہم کرے ۔ سالوں سے ٹوٹی سٹرکیں دو ماہ سے بننا شروع ہوئی ہیں۔انہوںنے مطالبہ کیا کہ کراچی میں پانی کی کمی پورا کرنے کے لیے سینی ٹیشن پلانٹ لگائے جائیں ۔