فیصل آباد: امسال وفاقی و صوبائی حکومت کی کسان دوست پالیسیوں کی وجہ سے گندم کی ریکارڈ 26ملین ٹن پیداوار ممکن ہوئی،ڈاکٹر اقراراحمد خاں

پیداواری لاگت میں ہونے والے اضافے اور مارکیٹ میں سکڑتی ہوئی آمدنی کی وجہ سے کسان کیلئے کاشتکاری منافع بخش و پرکشش پیشہ نہیں رہی جبکہ اس کے مقابلہ میں آڑھتی و مڈل مین‘ فلور ملز‘ ٹیکسٹائل‘ پولٹری اور شوگرانڈسٹری مالکان کی شرح منافع میں کئی گنااضافہ ہوتا جا رہا ہے ڈی اے پی کھاد کی 60فیصد زیادہ کھپت سے فی ایکڑ پیداوار نے 40من سے تجاوزکر چکی ہے، نگران وائس چانسلر زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کی 21ویں سینئر مینجمنٹ کورس شرکاء سے گفتگو

پیر 22 مئی 2017 21:37

فیصل آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 مئی2017ء) زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے نگران وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر اقراراحمد خاں نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ کی سینئر فیکلٹی ممبر مسز خالدہ بشیر کی سربراہی میں 21ویں سینئر مینجمنٹ کورس شرکاء سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ امسال وفاقی و صوبائی حکومت کی کسان دوست پالیسیوں کی وجہ سے ڈی اے پی کھاد کی 60فیصد زیادہ کھپت سے گندم کی ریکارڈ 26ملین ٹن پیداوار ممکن ہوئی اور فی ایکڑ پیداوار نے 40من سے تجاوزکر چکی ہے پیداواری لاگت میں ہونے والے اضافے اور مارکیٹ میں سکڑتی ہوئی آمدنی کی وجہ سے کسان کیلئے کاشتکاری منافع بخش و پرکشش پیشہ نہیں رہی جبکہ اس کے مقابلہ میں آڑھتی و مڈل مین‘ فلور ملز‘ ٹیکسٹائل‘ پولٹری اور شوگرانڈسٹری مالکان کی شرح منافع میں کئی گنااضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا تھا کہ برف پوش پہاڑوں سے سطح سمندر تک پھیلے مختلف ایگروایکولاجیکل زونز سینکڑوں فصلات کی کاشت کیلئے انتہائی موزوں قرار دیئے گئے ہیں جن کیلئے سپلائی و کول چین مینجمنٹ کی سہولیات فراہم کرکے کسان کی آمدنی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے تاہم ہمارا کسان پانچ فصلوں پر مشتمل پولٹیکل اکانومی سے باہر نکلنے کا رسک نہیں لے پا رہا۔ انہوں نے بتایا کہ چین میں سوکھے بیرپرتکلف اور اعلیٰ ضیافتوں کا نمایاں حصہ ہوتے ہیں اور پاک چین اقتصادی راہ داری کے ذریعے پاکستانی بیرچینی مارکیٹ میں برآمد کرکے کثیرزرمبادلہ کمانے کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے جس کیلئے ہمیں بیروں کی کاشت کو رواج دینا ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے حال ہی میں 48نئے ڈگری پروگرام متعارف کروائے ہیں جبکہ چین اور کینیڈا کی جامعات سمیت آئی بی اے سکھر کے ساتھ بھی مشترکہ ڈگری پروگرام کے مختلف انتظامات بھی کر رکھے ہیں تاکہ نوجوانوں کے اختیار کو بڑھاتے ہوئے تعلیم کو مزید متنوع بنایا جا سکے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر ملک میں سویا بین ‘ سن فلاور اور کینولہ کی کاشت کو رواج دے کر اس کی کسان دوست مارکیٹنگ ممکن بنا دی جائے تو اربوں ڈالر کے خوردنی تیل کی درآمدمیں واضح کمی لائی جا سکتی ہے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ یونیورسٹی ماہرین گندم کے پانچ پانیوں کو تین تک محدود کرکے فاضل پانی کی دوسری فصلوں کیلئے دستیابی کیلئے ہے کیونکہ پانچ مرتبہ آبپاشی پر منگلا اور تربیلاکی ٹوٹل سٹوریج سے بھی زیادہ پانی خرچ ہورہا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے پاک چین اقتصادی راہ داری کے خاطر خواہ ثمرات سمیٹنے کیلئے ٹیکنیشنز کی تربیت کے ساتھ ساتھ سینکڑوں نوجوانوں کیلئے چینی زبان سیکھنے کے مواقع فراہم کر دیئے ہیں تاکہ ان کیلئے چینی جامعات میں ا علیٰ تعلیم اور مقامی سطح پر چینی باشندوں کے ساتھ گفتگو کے دروازے کھولے جا سکیں۔

انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے 25ہزار طلبہ میں سے 7ہزار سے زائد نوجوان ملکی یا بین الاقوامی مالی معاونت سے مستفید ہورہے ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال یونیورسٹی اکائونٹ سے 75کروڑ روپے سے زائد کے وظائف باصلاحیت اور ضرورت مند طلبہ میں تقسیم کئے گئے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان میں مسائل کی بڑی وجہ مینجمنٹ کمزوریاں ہیں جن کی وجہ سے لوگوں میں احساس محرومی اور مایوسی بڑھ رہی ہے ۔ ملک میں وسائل کی غیرمساوی تقسیم اورشہری و دیہی سطح پر سہولیات و روزگار کی بڑھتی ہوئی خلیج پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں زراعت پر سرمایہ کاری میں اضافہ سے دیہی ترقی کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ دیہاتوں سے شہروں کی جانب نقل مکانی کے بڑھتے ہوئے رجحان میں کمی لائی جا سکے۔

متعلقہ عنوان :