الیکشن کمیشن کے 163 میں سے 158دفاترکرائے کی عمارتوں میں، 2 ارب روپے سے زائد کے اخراجات کا انکشاف

2013 کے انتخابات میں سامنے آنے والی الیکشن کمیشن اور حکومتی انتظامی خامیوں کے حوالے سے انکوائری کمیشن کی رپورٹ اورسٹریٹجک پلان پرتاحال عمل درآمد نہ کیا جا سکا 2013کے عام انتخابات کے الیکشن ریکارڈ کے بعد 2015 میں ہونیوالے بلدیاتی انتخابات کے ریکارڈ کے ضیاع ، صورتحال جوں کی توں رہنے کے باعث 2018 کے عام انتخابات میں 2013 کے الیکشن کی قباحتیں سامنے آنے کا خدشہ

منگل 23 مئی 2017 14:56

الیکشن کمیشن کے 163 میں سے 158دفاترکرائے کی عمارتوں میں، 2 ارب روپے سے ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 23 مئی2017ء) چار برس قبل 2013 کے عام انتخابات میں سامنے آنے والی الیکشن کمیشن اور حکومت کی انتظامی خامیوں کے حوالے سے انکوائری کمیشن کی رپورٹ اورسٹریٹجک پلان پرتاحال عمل درآمد نہ کیا جا سکا، الیکشن کمیشن اب بھی ملک بھر 163 دفاتر میں سے 15 8دفاتر کا ماہانہ تقریباً 18 کروڑ روپے کرایہ ادا کرنے پر مجبور۔

وفاقی و صوبائی حکومتوں سمیت پارلیمنٹر ینزبھی اس حوالے سے قومی اسمبلی میں کوئی بل پیش نہ کر سکے۔2013 کے الیکشن ریکارڈ کے بعد 2015 میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کا ریکارڈ بھی ضائع ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا، صورتحال جوں کی توں رہنے کے باعث 2018 میں ہونے والے عام انتخابات میں بھی 2013 کے انتخابات کی قباحتیں دوبارہ سامنے آنے کا خدشہ ہے۔

(جاری ہے)

تفصیلات کے مطابق چار سال قبل ہونے والے عام انتخابات میں سامنے آنے والی انتخابی قباحتوں کے حوالے سے بننے والے انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں جن دو نکات پر سب سے زیادہ زور دیا گیا تھا ان میں عام انتخابات میں بے قاعدگیا ں اور الیکشن کمیشن کا ریکارڈ درست حالت میں نہ رکھنے پر کمیشن نے کئی سوالات اٹھائے تھے جس کے بعد الیکشن کمیشن نے ایک اسٹرٹیجک پلان2014 تا 2018 ترتیب دیا تھا جس کے مطابق الیکشن کمیشن ملک بھر کے تمام 123 اضلاع میں الیکشن کمیشن کے دفاتر کے لئے اپنے پلاٹ خرید کر ضلعی الیکشن کمیشن دفاتر کے لئے عمارتیں تعمیر کرنا تھیں ۔

الیکشن کمیشن کے اسٹرٹیجک پلان پر عمل درآمد کے لئے الیکشن کمیشن کی جانب سے وفاقی حکومت کو تین سمریاں بھیجی گئیں جن میں الیکشن کمیشن کے ضلعی دفاتر کے لئے زمیں حاصل کر کے الیکشن کمیشن کے حوالے کرنے کی استدعا کی گئی تھی تاہم ان سمریوں پر وفاقی حکومت کی جانب سے خاطر خواہ توجہ نہ دی گئی جس باعث الیکشن کمیشن 2013 کے عام انتخابات کا ریکارڈ چار سال گزرنے کے باوجود بھی اپنے پاس رکھنے پر مجبور ۔

جبکہ 1976 کے عوامی نمائندگی ایکٹ کے سیکشن 44 میں بھی واضح درج ہے کہ الیکشن کمیشن انتخابات کے ایک سال کے بعد تمام تر ااندراجات کے بعد ریکارڈ تلف کر دے گا۔ آئی این پی کے ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن کی 1956 میں تشکیل کے بعد سے اب تک صرف پانچ دفاتر الیکشن کمیشن کی اپنی زمین پر بنائے گئے ہیں جبکہ ملک بھر کے 123 اضلاع،29 ریجنل ڈویژن اور ملک کی سات قبائلی ایجنسیوں میں سے صرف پانچ دفاتر الیکشن کمیشن کی اپنی ملکیت ہیں جبکہ ملک بھر میں قائم 163میں سے 158 الیکشن کمیشن دفاتر کرائے پر حاصل کئے گئے ہیں جن پر کم از کم ماہانہ کرایہ لگ بھگ18 کروڑروپے ماہانہ ادا کیا جا رہا ہے آئی این پی ذرائع کے مطابق اس وقت صرف 6تا7 اضلاع میں الیکشن کمیشن کے اپنے دفاتر کے لئے زمینیں حاصل کرنے کا عمل جاری ہے۔

ان ضلعوں میںگجرانوالہ،کوہاٹ،مکران،بنوں، نصیر آباد اور چند دیگر اضلاع شامل ہیں جب کہ باقی سینکڑوں اضلاع میں الیکشن کمیشن کرائے کے مکانات میں دفاتر رکھنے پر مجبور ہے جس باعث انتخابی ریکارڈ بغیر اندراج ضائع ہونے کے خدشات ہیں جبکہ اس پر ستم ظریفی یہ کہ2015 کے بلدیاتی انتخابات کا ریکادڑ بھی سابقہ ہونے والے عام انتخابی ریکارڈ کے ساتھ حکومت کے ٹریثری دفاتر میں رکھ دیا گیا ہے جس باعث 2015 کے بلدیاتی انتخابات کا ریکارڈ بھی ضائع ہونے کے اندیشے کا اظہار کیا جا رہا ہے واضح رہے کہ انکوائری کمیشن رپورٹ کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے ترتیب دیا جانے والے 2014 تا2018 اسٹرٹیجک پلان میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن نا صرف ملک بھر کے تمام اضلاع میں اپنی زمین خرید کر دفاتر تعمیر کرے گا بلکہ ان دفاتر میں الیکشن آفیسرز کے لئے رہائش گاہوں سمیت انتخابی ریکارڈ کی سیکورٹی کے لئے عملے کا بھی بندوبست کیا جائے گا تاہم وفاقی و صوبائی حکومتوں سمیت الیکشن کمیشن اب تک مجوزہ اسٹرٹیجک پلان پر عمل درآمد میں بظاہر ناکام نظر آ رہا ہے جس باعث ان خدشات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ 2013 کے عام انتخابات میں الیکشن پراسس میں سامنے آنے والی قباحتیں 2018 میں بھی دور نہیں کی جا سکیں گی۔