Live Updates

ْعمران خان نااہلی کیس ،سیاسی جماعت کا کلچر صاف رکھنا ہی پولیٹیکل پارٹی ایکٹ ہے‘سپریم کورٹ

منگل 23 مئی 2017 16:19

ْعمران خان نااہلی کیس ،سیاسی جماعت کا کلچر صاف رکھنا ہی پولیٹیکل پارٹی ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 23 مئی2017ء) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف آف شور کمپنیوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ سیاسی جماعت کا کلچر صاف رکھنا ہی پولیٹیکل پارٹی ایکٹ ہے‘ کیا صرف غیر ملکی فنڈنگ پر ریفرنس دائر نہیں ہوسکتا کیا ممنوع ذرائع سے فنڈنگ کا جائزہ لینا آڈیٹر کا کام ہے‘ دلیل مان لیں تو ای سی پی کا فنڈ ضبطگی کا اختیار ختم ہوجائے گا‘ کیا آپ کے دلائل سیاسی جماعت کے قد کاٹھ کے مطابق ہیں‘ آپ ہمارا کام آسان کررہے ہیں‘ اگر آپ رضامند نہیں تو کہہ دیتے ہیں الیکشن کمیشن کو اختیار ہے‘ ہم الیکشن کمیشن کو ہی کیوں نہ کمیشن بنا دیں۔

منگل کو سپریم کورٹ میں عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف آف شور کمپنیوں سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

(جاری ہے)

عمران خان کے وکیل انور منصور نے کہا کہ عمران خان سے مشاورت کی ہے۔ درخواست ناقابل سماعت ہے میرٹ پر درخواست خارج کی جائے۔ اکرم شیخ نے کہا کہ عدالت نے جمعہ تک منی ٹریل جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

عدالتی حکم پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نعیم بخاری نے رضاکارانہ طور پر کچھ دستاویزات دینے کا کہا تھا۔ انور منصورنے کہا کہ فنڈنگ کا معاملہ وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے غیر ملکی فنڈنگ کی ڈیکلریشن وفاقی حکومت دے سکتی ہے۔ حکومتی ریفرنس پر عدالتی فیصلہ حتمی ہوگا۔ ملکی مفاد کے خلاف کام پر ہی ریفرنس دائر ہوسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا صرف غیر ملکی فنڈنگ پر ریفرنس دائر نہیں ہوسکتا جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ کونسا قانون الیکشن کمیشن کو جانچ پڑتال سے روکتا ہے۔ الیکشن کمیشن کا کام صاف شفاف انتخابات کرانا ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ لازمی نہیں سیاسی جماعت ہر سال غیر ملکی فنڈنگ ظاہر کرے آپ چاہتے ہیں معاملہ نہ الیکشن کمیشن سنے نہ ہم۔ انور منصور نے کہا کہ اکائونٹس میں بے ضابطگیاں ظاہر کرنا آڈیٹر کا کام ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ممنوع ذرائع سے فنڈنگ کا جائزہ لینا آڈیٹر کا کام ہے۔ انور منصور نے کہا کہ آڈیٹر نے قانون کو مدنظر رکھ کر آڈٹ کرنا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دلیل مان لیں تو ای سی پی کا فنڈ ضبطگی کا اختیار ختم ہوجائے گا۔ آپ کے مطابق ای سی پی آڈٹ رپورٹس کا دوبارہ جائزہ نہیں لے سکتا۔ انور منصور نے کہا کہ عدالت خود کوئی کمیشن بنا سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو کیوں نہ مقرر کریں۔ انور منصور نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے خلاف اپیلیں چل رہی ہیں۔ الیکشن کمیشن عدالت نہیں الیکشن کمیشن کا کام خود ٹریبونل بننا نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کے دلائل سیاسی جماعت کے قد کاٹھ کے مطابق ہیں جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کیا جماعت کا سربراہ مہر لگا دے تو کمیشن کچھ نہیں کرسکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی جماعت کا کلچر صاف رکھنا ہی پولیٹیکل پارٹی ایکٹ ہے۔ آپ کے دلائل سے کنفیوژن ہورہی ہے۔ انور منصور نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا اختیار صرف اکائونٹس کا جائزہ لینا ہے۔ آڈیٹر جنرل نے دوسرے جماعتوںکے اکائونٹس پر اعتراضات کئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمارا کام آسان کررہے ہیں۔ اگر آپ رضامند نہیں تو کہہ دیتے ہیں الیکشن کمیشن کو اختیار ہے۔

کیا آپ کے مطابق الیکشن کمیشن کو اختیار نہیں رہا۔ انور منصور نے کہا کہ اکائونٹس جمع کراتے وقت الیکشن کمیشن کا اختیار ہوتا ہے الیکشن کمیشن کا یہ اقدام انتظامی ہے عدالتی نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم الیکشن کمیشن کو ہی کیوں نہ کمیشن بنا دیں۔ جانتے ہیں آپ موکل سے ہدایت لے کر ہی بتا سکتے ہیں۔ انور منصور نے کہا کہ عدالت اگر کمیشن مقرر کرے تو اعتراض نہیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت کل بدھ تک ملتوی کردی۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات