وزارت پانی و بجلی حکام گردشی قرضوں اور لوڈشیڈنگ کے معاملے پر پی اے سی کو مطمئن کرنے میں ناکام

وزارت کے افسران کمیٹی کے سوالوں کے جواب کیلئے ایک دوسرے کو آگے کرتے رہے،سیکرٹری پانی و بجلی نے گردشی قرضوںکے معاملے پر وزارت کی نااہلی تسلیم کرتے ہوئے تیاری کیلئے مزید وقت مانگ لیا

بدھ 24 مئی 2017 16:49

وزارت پانی و بجلی حکام گردشی قرضوں اور لوڈشیڈنگ کے معاملے پر  پی اے ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 24 مئی2017ء) وزارت پانی و بجلی کے حکام گردشی قرضوں اور لوڈشیڈنگ کے معاملے پر پارلیمان کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کو دوسرے روز بھی مطمئن کرنے میں ناکام ہو گئے،وزارت کے افسران کمیٹی کے سوالوں کے جواب کیلئے ایک دوسرے کو آگے کرتے رہے، سیکرٹری پانی و بجلی یوسف نسیم کھوکھر نے گردشی قرضوںکے معاملے پر وزارت کی نااہلی تسلیم کرتے ہوئے تیاری کیلئے مزید وقت مانگ لیا، چیئرمین کمیٹی خورشید شاہ نے حکام کی طرف سے تسلی بخش جواب نہ آنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی اے سی کے ایک اجلاس پر ایک کروڑ تک خرچہ آتا ہے، آپ نے 2دنوں میں 2کروڑ کا خرچہ کروایا ، جواب ایک بھی نہیں دیا، گزشتہ 3سالوں میں پٹرول کی قیمت آدھی ہوئی، لائن لاسز میں کمی ہوئی، بجلی کی قیمت دوگنا سے بھی بڑھ گئی، پھر بھی گردشی قرضے 402ارب تک کیسے پہنچ گئے، پی اے سی قوم کے پیسے کا حساب لینے کیلئے بیٹھی ہوئی ہے، مزید دن دینے کیلئے تیا ر ہیں تاہم ہر صورت معلومات فراہم کی جائیں کہ لوڈ شیڈنگ میں کیا کمی آئی، گردشی قرضے کیسے بڑھے، اس معاملے پر سیاست نہیں کرنا چاہتے ۔

(جاری ہے)

پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس بدھ کو چیئرمین سید خورشید احمد شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا جس میں وزارت پانی و بجلی کے حکام کی طرف سے گردشی قرضوں اور بجلی کی پیداوار سے متعلق بریفنگ دی گئی۔ایڈیشنل سیکرٹری وزارت پانی و بجلی نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اسوقت گردشی قرضے 4 سو ارب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں، آئی پی پیز کو بجلی کی پیداوار کی مد میں 237 ارب روپے ادا کرنے ہیں، گیس کی مد میں 11 ارب روپے اور تیل کی مد میں 99 ارب روپے واجب الادا ہیں،اسوقت بجلی کی پیداواری لاگت 8 روپے 52 پیسے فی یونٹ ہے، صارفین کو 11 روپے 97 پیسے فی یونٹ دی جا رہی ہے،ہائیڈل سے 4 روپے 11 پیسے، آئی پی پیز ہائیڈل سے 8 روپے 80 پیسے اور کوئلے سے 11 روپے 65 پیسے فی یونٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے،ڈیزل سے 16 روپے 19 پیسے، فرنس آئل سے 11 روپے 76 پیسے اور گیس سے 8 روپے 86 پیسے فی یونٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے،نیوکلئیر سے 5 روپے 36 پیسے، ہوا سے 17 روپے 34 پیسے، سولر 16 روپے 92 پیسے فی یونٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے، نیپرا کی جانب سے 15 اعشاریہ تین فیصد نقصانات کی اجازت ہے جبکہ اصل نقصانات 17 اعشاریہ 9 فیصد ہیں،ترسیلی نقصانات کے باعث چار سال میں 135 ارب 54 کروڑ روپے سے زائد نقصان ہو چکا ہے، موجودہ حکومت نی2013میں 480 ارب روپے کا گردشی قرضہ ادا کیا جو اب دوبارہ402 ارب تک پہنچ گیا ہے، گردشی قرضوں میں 135 ارب روپے کے ترسیلی نقصانات، 182 ارب روپے بلوں کی مد میں جبکہ 62 اعشاریہ 45 ارب سبسڈی کی مد میں بقایا ہے، اس کے علاوہ کے الیکٹرک کے ذمے بھی 22 ارب روپے کے واجبات ہیں۔

رکن کمیٹی میاں عبدالمنان نے کہا کہ کے الیکٹرک خود بجلی پیدا کیوں نہیں کررہا ، الٹا معاہدہ ختم ہونے کے باوجود وفاق سے 600میگاواٹ سے زائد بجلی لے رہا ہے، کے الیکٹرک نہ کراچی کو بجلی دے رہا ہے نہ پیسے دے رہا ہے، سارے پیسے باہر منتقل کر رہے ہیں۔حکام وزارت پانی وبجلی نے بتایا کہ کے الیکٹرک کا شنگھائی الیکٹرک سے معاہدہ رکا ہوا ہے، کے الیکٹرک کے ساتھ چھ سو پچاس میگاواٹ کا معاہدہ ختم ہوچکا ہے ، معاہدہ ختم ہونے کے باوجود سپلائی دے رہے ہیں ، وزارت خزانہ سے سبسڈی والے 62ارب مل گئے تو آئی پی پیز اور پی ایس او کے کافی حد تک واجبات ادا کردیں گے ۔

رکن کمیٹی سید نوید قمر نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ سسٹم میں مزید پانچ ہزار میگاواٹ اضافی بجلی شامل کی گئی ہے اس کے باوجود لوڈ شیڈنگ وہیں پر ہے،۔ حکام نے جواب دیا کہ طلب بڑھ گئی ہے۔ جس پر نوید قمر نے کہا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ طلب بڑھ گئی، اگر اضافی بجلی آئی ہے تو صارفین تک کیوں نہیں پہنچ رہی،میں طلب بڑھنے کے جواز کو نہیں مانتا۔ سردار عاشق گوپانگ نے کہا کہ بجلی پیدا کرنے والے ذرائع کی طرف توجہ کیوں نہیں دی جا رہی،سٹیٹ بنک نے سولر انرجی کیلئے قرضے دینے اعلان کیا تھا ، پھر اس پر کام نہیں ہوا،پنجاب میں لوگ بڑی تیزی سے سولر انرجی کی طرف جارہے ہیں، حکومت کو سولر انرجی کیلئے لوگوں کو قرضے دینے چاہیں۔

چیئرمین کمیٹی سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ لوگ خود بھی سولر انرجی کی طرف جانا چاہتے ہیں ، کیا حکومت عوام کو اس معاملے پر سبسڈی دے رہی ہے۔ جنید انوار چودھری نے کہا کہ دوسال قبل حکومت نے ریورس میٹرنگ کا منصوبہ شروع کیا تھا، بعد ازاں لوگوں کو اس کی اجازت بھی نہیں دی جارہی ، بہت سے لوگ سولر سسٹم کے ذریعے بجلی پیدا کرکے بیچنا چاہتے ہیں،محکمے کی طرف سے ان کی حوصلہ افزائی نہیں ہورہی۔

سیکرٹری وزارت نے کہا کہ معاملہ نوٹس میں آگیا ہے اس کا جائزہ لیں گے۔ کمیٹی ممبران نے دوبارہ سوال داغ دیا کہ بتایا جائے گردشی قرضہ کیوں بڑھ رہا ہے جس پر حکام نے کہا کہ جس دن سبسڈی بند ہوتی ہے سرکولر ڈیٹ بڑھ جاتا ہے۔وزارت پانی و بجلی کے حکام نے بتایا کہ 2013 سے اب تک 5447 میگا واٹ بجلی سسٹم میں داخل ہوئی، 3111 میگا واٹ دسمبر 2017 تک مزید بجلی سسٹم میں آئے گی۔

چیئرمین کمیٹی خورشید شاہ نے حکام کی طرف سے تسلی بخش جواب نہ آنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی اے سی کے ایک اجلاس پر ایک کروڑ تک خرچہ آتا ہے، آپ نے 2دنوں میں 2کروڑ کا خرچہ کروایا ، جواب ایک بھی نہیں دیا، گزشتہ 3سالوں میں پٹرول کی قیمت آدھی ہوئی، لائن لاسز میں کمی ہوئی، بجلی کی قیمت دوگنا سے بھی بڑھ گئی، پھر بھی گردشی قرضے 402ارب تک کیسے پہنچ گئے، پی اے سی قوم کے پیسے کا حساب لینے کیلئے بیٹھی ہوئی ہے، ہائیڈرل پاور کا ٹیرف دو روپے بڑھا دیا گیا ، غازی بروتھا کا ایک سال کی منافع 135بلین روپے تھا، غاری بروتھا ایک سال میں اتنا منافع دیتا ہے دو روپے بڑھانے سے کتنا منافع ہوگا ،25 سال کی اوسط نکالیں تو 6 ارب بنتا ہے،عوام کو پھنسانے کیلئے قیمت ڈبل کیوں کردی ،عوام ڈبل قیمت کیوں ادا کریں۔

گردشی قرضوں کے معاملے پر وزارت کے حکام دوسرے روز بھی کمیٹی کو مطمئن کرنے میں ناکام ہو گئے اور حکام کمیٹی کے کئی سوالات پر بے بسی کی تصویر بنے رہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ مزید دن دینے کیلئے تیا ر ہیں تاہم ہر صورت معلومات فراہم کی جائیں کہ لوڈ شیڈنگ میں کیا کمی آئی، گردشی قرضے کیسے بڑھے، اس معاملے پر سیاست نہیں کرنا چاہتے ، آئندہ اجلاس میں تمام تفصیلات فراہم کریں۔