Live Updates

عمران خان نااہلی کیس ، سچائی جاننے کے لئے جو تحقیقات کرانا پڑیں کرائیں گے،سپریم کورٹ

جمعرات 25 مئی 2017 15:35

عمران خان نااہلی کیس ، سچائی جاننے کے لئے جو تحقیقات کرانا پڑیں کرائیں ..
-اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 25 مئی2017ء) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف آف شور کمپنیوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ سچائی جاننے کے لئے جو تحقیقات کرانا پڑیں کرائیں گے‘ سچ جاننے کے لئے تمام ضروری ریکارڈ منگوایا جائے گا‘ الزام عائد کیا گیا کہ عمران خان صادق اور امین نہیں ‘ کہا گیا عمران خان نے ٹیکس اور انتخابی گوشواروں میں ٹیکس کو چھپایا پہلے انکم اور دولت ٹیکس کا جائزہ لیں گے‘ صادق اور امین کا فیصلہ ایف بی آر نے نہیں کرنا‘ اصل مسئلہ ادائیگی مکمل ہونے کے بعد آنے کی رقم کا ہے‘ حساب کتاب نہ ہوا توکیا کریں گے‘ رقم ادائیگی اور انتقال کی تاریخوں کا جائزہ لے لیتے ہیں‘ بنی گالہ اراضی کے بعض انتقال 2005 کے بھی ہیں‘ طلاق کے بعد ہونے والے انتقال کا کیا جواب دیں گی جمعرات کو سپریم کورٹ میں عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف آف شور کمپنیوں سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

(جاری ہے)

عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان 1981ء سے ٹیکس ادا کررہے ہیں تمام ٹیکس ریکارڈ طلب کریں ہم خود بھی ریکارڈ اکٹھا کررہے ہیں۔ 1983 میں خریدا گیا فلیٹ کسی ٹیکس گوشوارے میں ظاہر نہیں کیا گیا۔ فلیٹ بیرون ملک کمائی سے خریدار کیا گیا تھا۔ بیرون ملک کمائی سے خریدار گیا فلیٹ ظاہر کرنا لازمی نہیں تھا۔ 1983ء میں عمران خان عوامی عہدہ نہیں رکھتے ۔

تھے عمران خان 2002ء میں رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ ٹیکس ایمنسٹی ا سکیم کے تحت فلیٹ کو ظاہر کیا گیا۔ دو لاکھ چالیس ہزار روپے بطور ٹیکس دیا گیا۔ نعیم بخاری نے کہا کہ آف شور کمپنی ٹیکس چھپانے نہیں بچانے کے لئے بنائی جاتی ہے۔ کاغذات نامزدگی میں لندن فلیٹ ظاہر کیا گیا۔ اکرم شیخ نے کہا کہ عمران خان نے 1997 کے کاغذات نامزدگی میں فلیٹ ظاہر نہیں کیا تھا۔

1997ء کے کاغذات نامزدگی طلب کرنے کا حکم دیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اتنا پرانا ریکارڈ ہوگا یا نہیں آپ کا کیس فلیٹ نہیں نیازی سروسز ہے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ پہلے آپ نے کیس ایمنسٹی اسکیم سے شروع کیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ضرورت محسوس ہوئی تو دستاویزات طلب کریں گے۔ نعیم بخاری نے کہا کہ لندن فلیٹ 2003 میں فروخت ہوا ۔فلیٹ کی فروخت کے بعد معاملہ ختم ہوگیا۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ہم ابھی مزید بھی جاننا چاہتے ہیں۔ ریکارڈ سے ثابت کریں نیازی سروسز کا کوئی اثاثہ نہیں تھا۔ نعیم بخاری نے کہا کہ عمران خان کے پاس ایک گاڑی تھی۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ نیازی سروسز کے کتنے شیئرہولڈرز تھے۔ نعیم بخاری نے کہا کہ تین‘ تین پائونڈ کے تین غیر ملکی کمپنیوں کے شیئرز تھے۔ آئندہ سماعت پر مزید تفصیلات پیش کروں گا۔

جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کیا نیازی سروسز نے فنانشل ریٹرن جمع کرائے تھے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ کیا پاکستانیوں پر لازم ہے۔ بیرون ملک جائیداد ظاہر کی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ عمران خان صادق اور امین نہیں‘ کہا گیا عمران خان نے ٹیکس اور انتخابی گوشواروں میں ٹیکس کو چھپایا۔ پہلے انکم اور دولت ٹیکس کا جائزہ لینا ہوگا۔

نیازی سروسز کا ظاہر کرنا ضروری تھا یا نہیں۔ نعیم بخاری نے کہا کہ عمران خان صرف نیازی سروسز فلیٹ کے مالک تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صادق اور امین کا فیصلہ ایف بی آر نے نہیں کرنا ۔ نعیم بخاری نے کہا کہ عمران خان کی نظر میں 9پائونڈ کی کمپنی اثاثہ نہیں۔ نیازی سروسز محض شیل کمپنی رہ گئی تھی۔ ایمنسٹی اسکیم کے بعد ٹیکس ادائیگی کا معاملہ ختم ہوگیا۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ بنی گالہ اراضی کب اور کتنے میں خریدی گئی ادائیگی کی تفصیلات اور تاریخوں سے آگاہ کریں۔ ہمیں کوئی جلدی نہیں تمام تفصیلات کا جائزہ لیں گے۔ نعیم بخاری نے کہا کہ تمام ادائیگی چیکس کے ذریعے کی گئی۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ معاہدے اور ادائیگی کی تفصیلات میں فرق ہے۔ کل رقم دونوں دستاویزات میں ایک جیسی ہے۔

نعیم بخاری نے کہا کہ ممکن ہے جمع تفریق میں کوئی غلطی ہوگئی ہو۔ چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار کا یہ کیس بھی نہیں۔ وکیل نے کہا کہ لندن فلیٹ کی فروخت میں تاخیر قانونی چارہ جوئی کے باعث ہوئی۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ لندن فلیٹ فروخت کی رقم کب اور کیسے منتقل ہوئی نعیم بخاری نے کہا کہ 14 اپریل 2003ء کو لندن فلیٹ فروخت ہوا۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ مارچ 2014 تک عمران خان فلیٹ کا کرایہ وصول کرتے رہے۔

نعیم بخاری نے کہا کہ کرایہ دار کے ساتھ بقایا جات پر قانونی چارہ جوئی چل رہی تھی کرایہ دار سے متعلق عدالتی فیصلہ بھی جمع کراچکا ہوں۔ جمائما نے لندن سے راشد خان کو رقم منتقل کی۔ بینک سرٹیفکیٹ سے واضح ہے رقم جمائما نے بھیجی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بھی نوٹ کرلیا رقم کن تاریخوں کو بھجوائی گئی۔ بنی گالہ رقم اراضی کا معاہدہ 30جون 2002 تک تھا۔

نعیم بخاری نے کہا کہ ادائیگی کے لئے تاریخ میں توسیع کردی گئی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ توسیع کس تاریخ تک ہوئی تھی۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ بہت سی رقم بنی گالہ ادائیگی کے بعد بھی آئی۔ نعیم بخاری نے کہا کہ کرنسی تبدیلی کے بعد رقوم اقساط میں آئیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اصل مسئلہ ادائیگی مکمل ہونے کے بعد آنے کی رقم کا ہے۔ 29 جولائی 2003 کو رقم کی آخری قسط موصول ہوئی جنوری 2003 میں ادائیگی مکمل ہوچکی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حساب کتاب نہ ہوا تو کیا کریں گے۔ وکیل نے کہا کہ یہ بری اکائونٹنگ ہوگی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اس کو صرف بری اکائونٹنگ کہنا درست ہوگا۔ رقم ادائیگی اور انتقال کی تاریخوں کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ بنی گالہ اراضی کے بعض انتقال 2005 کے بھی ہیں۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ اندراج کب ہوا نعیم بخاری نے کہا کہ اندراج کی تفصیلات چیک کرکے بتائوں گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان اور جمائما کی طلاق کب ہوئی نعیم بخاری نے کہا کہ جون 2004 میں طلاق ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ طلاق کے بعد ہونے والے انتقال کا کیا جواب دیں گی نعیم بخاری نے کہا کہ دونوں کی طلاق لڑائی جھگڑا کا نتیجہ نہیںتھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا راشد خان نے اپنی طرف سے کوئی ادائیگی کی نعیم بخاری نے کہا کہ راشد خان نے کوئی ادائیگی نہیں کی۔

عمران خان نے جمائما کو سات مئی کو ادائیگی کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سچائی جاننے کے لئے جو تحقیقات کرنا پڑی کرائیں گے ۔سچ جاننے کے لئے تمام ضروری ریکارڈ منگوایا جائے گا۔ انکم ٹیکس ریٹرن آپ خود ہی جمع کرادیں۔ عمران خان کو گوشواروں کے لئے حکم کی ضرورت نہیں ۔امید ہے آپ کو ہمارے سوالات سمجھ آگئے ہوں گے۔ نعیم بخاری نے کہا کہ آئندہ سماعت پر جوابات دینے کی کوشش کروں گا۔

اسلام آباد میں فلیٹ کا معاملہ بھی اٹھایا گیا۔ عمران خان نے صرف ڈائون پیمنٹ جمع کرائی تھی۔ ڈائون پیمنٹ کے وقت معلوم نہیں تھا کونسا فلیٹ ملے گا۔ فلیٹ کو کنفرم نہ ہونے پر گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا گیا۔ اگلی قسط جمع کراتے وقت فلیٹ کا علم ہوچکا تھا۔ فلیٹ کا علم ہوتے ہی گوشواروں میں ظاہر کردیا گیا۔ عدالت نے کیس کی سماعت کل جمعہ تک ملتوی کردی۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات