اٹھارویں ترمیم پر سیاسی و پارلیمانی قیادت نے دن رات محنت کی، روح پر من و عن عمل ہونا چاہیے،سینیٹر میر کبیر احمد شاہی

منافع بخش اور خسارے والے محکموں کی بحث کے بجائے ان محکمہ جات کو صوبوں کے حوالے کیا جائے، مشترکہ مفادات کونسل میں اہم قومی معاملات کا زیر التواء رہنا درست نہیں،-صوبوں میں اپنے اپنے ہائیر ایجوکیشن کمیشن بنانے کے لیے کی جانیوالی قانون سازی اور عدالتی معاملات کی تفصیل سے کمیٹی کو آگاہ کیا جائے ، چیئرمین سینیٹ فنکشنل کمیٹی برائے منتقل کردہ اختیارات

جمعرات 25 مئی 2017 16:27

اٹھارویں ترمیم پر سیاسی و پارلیمانی قیادت نے دن رات محنت کی، روح پر ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 مئی2017ء) سینیٹ فنکشنل کمیٹی برائے منتقل کردہ اختیارات کے چیئرمین سینیٹر میر کبیر احمد شاہی نے کہا ہے کہ اٹھارویں ترمیم پر سیاسی و پارلیمانی قیادت نے دن رات محنت کی ، اٹھارویں ترمیم کی رو ح کے مطابق اس پر من و عن عمل ہونا چاہیے، منافع بخش اور خسارے والے محکموں کی بحث کے بجائے ان محکمہ جات کو صوبوں کے حوالے کیا جائے۔

مشترکہ مفادات کونسل میں اہم قومی معاملات کا زیر التواء رہنا درست نہیں۔ -صوبوں میں اپنے اپنے ہائیر ایجوکیشن کمیشن بنانے کے لیے کی جانے والی قانون سازی اور عدالتی معاملات کی تفصیل سے کمیٹی کو آگاہ کیا جائے ،ورکر ز ویلفیئر بورڈ صوبہ خیبر پختونخوا2200ملازمین کی تنخواہ فوری ادا کی جائے۔

(جاری ہے)

بھر تی کے عمل میں بے ضابطگیوں کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے ۔

مکمل چھان بین کے بعد اہل ملازمین کو مستقل کیا جائے اور اٹھائے گئے اقدامات سے کمیٹی کو ماہانہ بنیاد پر تفصیلات سے آگا ہ رکھا جائے ۔ کمیٹی میں فیصلہ ہوا کہ ایچ ای سی کے بارے میں چاروں صوبوں سے مشاور ت کے لیے ون پوائنٹ ایجنڈا اجلاس منعقد کیا جائے گا۔ کمیٹی نے ای اوبی آئی کے پینشنرز کے اے ٹی ایم کارڈز سی17روپے کٹوتی ختم کرنے کی سفارش کی اور 32000پیشنرز کو جلد از جلد اے ٹی ایم کارڈز جاری کرنے کی ہدایت دی۔

وفاقی سیکرٹری اووسیز پاکستانیز نے آگا ہ کیا کہ بغیر بورڈ کی منظوری کے ملازمین بھرتی کیے گئے۔ جن کی تعلیمی اسناد ، تجربے اور اہلیت کے بارے میں شکوک تھے ۔ جس پر کمیٹی قائم کی گئی لیکن بھرتی شدہ ملازمین کا دفترمیں ریکارڈ جلا دیا گیا۔ ملازمین کو کل تنخواہیں ادا کردی جائیں گی لیکن مستقل کرنے کیلئے گورننگ باڈی سے منظوری کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔

سیکرٹری خیبرپختونخوا نے بتایا کہ ملازمین کے مسائل حل کرنے کیلئے باقاعدہ کارروائی شروع ہے ۔ طلبہ کی تعداد کے تحت اساتذہ کی ضرورت اور ورکربورڈ کے وسائل کو بھی مدنظر رکھا جارہا ہے۔ قواعد کے تحت اساتذہ ورکز میں شامل نہیں۔ ای او بی آئی کے سربراہ نے بتایا کہ 3لاکھ 70ہزار پیشنرز کو اے ٹی ایم کارڈ جاری ہوچکے ہیں۔ کسی بھی بنک سے پینشن نکلوائی جاسکتی ہے۔

اسٹیٹ بنک کو پنشن میں سے 17روپے کٹوتی کا خط لکھا ۔ اسٹیٹ بنک نے انکار کردیا ہے۔ جس پر اراکین کمیٹی نے اتفاق رائے سے سفارش کی کہ اسٹیٹ بنک کو کٹوتی نہ کرنے کا کمیٹی خط لکھے۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل ہونے والی وزارتوں اور محکموں کا معاملہ وفاق کے زیر انتظا م نہیں ۔صوبہ خیبر پختونخوا ملازمین کا مسئلہ خود حل کرے۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ فنڈز اب تک وفاق کے پاس کیوں ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ 2011سے 2017تک تنخواہیں ادا کی جارہی ہیں۔ ملازمین کے پاس موجود کاغذات کی چھان بین کرکے انہیں مستقل کیا جاسکتا ہے۔ ۔ سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر)صلاح الدین ترمذی نے کہا کہ صوبوں کی قراردادوں سے آئین میں ترامیم نہیں ہوسکتی۔ نئی کمیٹی بنا کر ملازمین کا مسئلہ جلد سے جلد حل کریں۔

ایچ ای سی حکام نے آگا ہ کیا کہ صوبہ سندھ اور پنجاب نے اپنے ایچ ای سی بنا لیے ہیں۔ 2002سے قبل ملک میں 67یونیورسٹیاں اور 7لاکھ طالبعلم تھے اس وقت 204یونیورسٹیوں میں سے 113پبلک سیکٹر میں ہیں جن میں بلوچستان کی بھی 6یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ سینیٹر نثار محمد نے تعلیم ، تحقیق اور نئی تعلیمی درسگاہوں کے قیام اور تعلیمی معیار کے بارے میں سوال اٹھایا جس پر آگاہ کیا گیا کہ بین الاقوامی رینکنگ میں ہماری یونیورسٹیوں کی پوزیشن بہتر ہوگئی ہے۔ اجلاس میں سینیٹرز نثار محمد ، کامل علی آغا ، لیفٹیننٹ جنرل(ر)صلاح الدین ترمذی کے علاوہ متعلقہ وزارتوں اورمحکمہ جات کے افسران نے شرکت کی۔

متعلقہ عنوان :