گزشتہ 10 سال کے مقابلہ میں رواں مالی سال میں مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو میں 5 فیصد سے زائد اضافہ ہوا

مالی سال 2013-14ء میں جی ڈی پی کی شرح نمو 3 فیصد تھی جو گزشتہ تین سال کے دوران 4 فیصد کے قریب رہی، گزشتہ مالی سال میں جی ڈی پی میں 4.51 فیصد کی شرح سے ترقی ریکارڈ کی گئی جبکہ رواں مالی سال میں جی ڈی پی کی شرح ترقی 5.3 فیصد ریکارڈ کی گئی، مجموعی قومی پیداوار میں 5.28 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جس میں صنعتی شعبہ کا حصہ 20.88 فیصد، زراعت 19.53 اور خدمات کے شعبہ کا حصہ 59.59 فیصد ریکارڈ کیا گیا، رواں مالی سال کے دوران صنعتی شعبہ کی شرح نمو میں 5.02 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ زراعت کے شعبہ کی کارکردگی 3.4 فیصد تک بڑھی ہے اور خدمات کے شعبہ کی شرح ترقی میں 5.98 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیاِ مالی سال 2015-16ء کے دوران مہنگائی کی شرح 2.79 فیصد تک کم ہو گئیِ، مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اقتدار سنبھالا تو ملک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 4 ارب ڈالر تھے جو 23 مئی 2017ء تک 16.15 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں اس طرح زرمبادلہ کے ذخائر میں گزشتہ چار سال کے دوران 400 فیصد کے قریب اضافہ ریکارڈ کیا گیا وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے اقتصادی سروے برائے مالی سال 2016-17ء پیش کر دیا

جمعرات 25 مئی 2017 17:27

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 مئی2017ء) گزشتہ 10 سال کے مقابلہ میں رواں مالی سال میں مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو میں 5 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ جمعرات کو یہاں اقتصادی سروے برائے مالی سال 2016-17ء پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ مالی سال 2013-14ء میں جی ڈی پی کی شرح نمو 3 فیصد تھی جو گزشتہ تین سال کے دوران 4 فیصد کے قریب رہی۔

گزشتہ مالی سال میں جی ڈی پی میں 4.51 فیصد کی شرح سے ترقی ریکارڈ کی گئی جبکہ رواں مالی سال میں جی ڈی پی کی شرح ترقی 5.3 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی جی ڈی پی میں اضافہ کے درست اعداد و شمار مرتب کرنے میں 2 بڑی مشکلات ہیں۔ پاکستان میں معیشت کے اعداد و شمار مرتب کرنے کا طریقہ کار 20 سال پرانا ہے جس کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 10 سال کے دوران چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں اور قومی معیشت میں اضافہ ہوا ہے جو اس میں شامل نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی بینک کو اس حوالے سے سٹڈی کا کہا گیا ہے جس میں 8 سے 12 ماہ لگیں گے۔ وزیر خزانہ نے امریکہ میں عالمی بینک کے حکام سے ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عالمی بینک سے کہا گیا ہے کہ وہ پاکستان کی قومی معیشت کے درست اعداد و شمار مرتب کرنے کے حوالے سے معاونت کرے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جی ڈی پی 20 فیصد تک کم ریکارڈ ہو رہی ہے۔

اس طرح کا کیس چین میں بھی تھا جب وہاں پر سٹڈی کروائی گئی تو چین کی معیشت میں 24 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران مجموعی قومی پیداوار میں 5.28 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے جس میں صنعتی شعبہ کا حصہ 20.88 فیصد، زراعت 19.53 اور خدمات کے شعبہ کا حصہ 59.59 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران صنعتی شعبہ کی شرح نمو میں 5.02 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ زراعت کے شعبہ کی کارکردگی 3.4 فیصد تک بڑھی ہے اور خدمات کے شعبہ کی شرح ترقی میں 5.98 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ مالی سال 2013ء میں جی ڈی پی کی شرح نمو 0.75 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی جس میں زراعت کے شعبہ کی شرح ترقی 2.68 فیصد اور خدمات کے شعبہ کی شرح نمو 5.13 فیصد تھی۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ تین سال کے دوران جی ڈی پی کی شرح نمو میں مسلسل اضافہ ہوا ہے اور ملک کی معیشت 300 ارب ڈالر سے بڑھ چکی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے لئے جی ڈی پی کی شرح نمو کا ہدف 6 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔

صنعتی شعبہ کی ترقی کی تفصیلات بتاتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ جاری مالی سال میں بڑے صنعتی اداروں کے شعبہ میں 5.06 فیصد کی شرح سے ترقی ہوئی ہے اور اس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مارچ 2016ء میں گزشتہ سال کے مقابلے میں ایل ایس ایم کے شعبہ میں 10 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ جولائی تا مارچ 2016-17ء کے دوران ایل ایس ایم کے شعبہ کی شرح نمو میں مجموعی طور پر 5.06 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مالی سال 2012-13ء میں بجلی کی پیداوار اور گیس کی تقسیم کی شرح منفی 26.38 فیصد تھی جو مالی سال 2013-14ء میں 0.74 فیصد تک پہنچ گئی پھر مالی سال 2014-15ء میں اس میں 13.48 فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ مالی سال 2015-16ء کے دوران بجلی کی پیداوار اور گیس کی تقسیم کی شرح 8.3 فیصد کا اضافہ ہوا اور رواں مالی سال میں اس میں مزید 3.4 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

تعمیراتی صنعت کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ مالی سال 2013ء کے دوران تعمیراتی شعبہ کی کارکردگی میں 1.08 فیصد کا اضافہ ہوا تھا جو رواں سال 9.05 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ تین سال کے دوران شعبہ کی شرح نمو میں بالترتیب 1.08 فیصد، 5.9 فیصد، 7.26 فیصد اور مالی سال 2015-16ء کے دوران 14.7 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ رواں مالی سال کے دوران شعبہ کی کارکردگی میں 9.05 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ بجٹ میں کاشتکاروں کے لئے 341 ارب روپے کے کسان پیکیج کا اعلان کیا گیا تھا جس کے خاطر خواہ نتائج حاصل ہونا شروع ہو گئے ہیں اور زرعی شعبہ کی کارکردگی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زرعی شعبہ مجموعی قومی معیشت کے 20 فیصد کے مساوی ہے جو 65 فیصد دیہی افرادی قوت کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گندم، چاول، گنا اور مکئی بڑی فصلیں ہیں جن کی پیداوار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کے دوران گندم کی پیداوار 25.63 ملین ٹن تھی جو رواں سال 25.75 ملین ٹن تک پہنچ گئی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت زرعی شعبہ کی کارکردگی میں مزید اضافہ کے لئے خصوصی اقدامات کر رہی ہے تاکہ غذائی تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مالی سال 2013-14ء کے دوران چاول کی پیداوار میں 6.8 فیصد کا اضافہ ہوا تھا جبکہ رواں مالی سال کے دوران اس کی پیداوار میں 6.89 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

اسی طرح گزشتہ سال مکئی کی پیداوار 5.27 ملین ٹن تھی جو رواں سال 6.13 ملین ٹن تک پہنچ چکی ہے۔ کپاس کی 9.92 ملین گانٹھ کے مقابلے میں پیداوار 10.7 ملین گانٹھ تک بڑھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کپاس کی پیداوار میں اضافہ کے لئے جامع اقدامات کر رہی ہے تاکہ قومی ضروریات کے لئے 14 ملین بیلز کی پیداوار حاصل کی جا سکے اور روئی کی درآمدات میں کمی کے ذریعے قیمتی زرمبادلہ کو بچایا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے زرعی شعبہ کی کارکردگی میں اضافہ کے لئے کاشتکاروں کو فراہم کئے جانے والے قرضوں کے حجم میں بھی نمایاں اضافہ کیا ہے۔ مالی سال 2012-13ء کے دوران زرعی شعبہ کو 336 ارب روپے، مالی سال 2013-14ء کے دوران 391 ارب روپے، مالی سال 2014-15ء کے دوران 516 ارب روپے، مالی سال 2015-16ء کے دوران 600 ارب روپے کے قرضے فراہم کئے گئے جبکہ رواں مالی سال کے لئے زرعی شعبہ کو قرضوں کے اجراء کا ہدف 700 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے مالی سال میں جولائی سے مارچ کے دوران زرعی شعبہ کو 231 ارب روپے کے قرضے فراہم کئے گئے تھے جو جاری مالی سال کے اسی عرصہ کے دوران 473 ارب روپے تک بڑھ چکے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ خدمات کا شعبہ ہماری معیشت میں 60 فیصد کا حصہ دار ہے جو گزشتہ مالی سال کے اختتام پر مجموعی معیشت کے 58 فیصد کے برابر تھا۔ خدمات کے شعبہ کی شرح نمو کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ مالی سال 2013-14ء کے دوران شعبہ کی شرح نمو 4.46 فیصد، 2014-15ء کے دوران 4.36 فیصد، 2015-16ء کے دوران 5.55 فیصد تھی جبکہ رواں سال شعبہ کی شرح نمو 5.98 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

وزیر خزانہ نے خدمات کے شعبہ کے اہم حصہ ہول سیل اینڈ ریٹیل ٹریڈ کی تفصیلات کے بارے میں کہا کہ مالی سال 2013-14ء کے دوران ذیلی شعبہ کی شرح نمو 4.70 فیصد، 2014-15ء کے دوران 2.6 فیصد، 2015-16ء کے دوران 4.29 فیصد اور رواں مالی سال میں 6.82 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ فنانس اینڈ انشورنس سیکٹر کے بارے میں انہوں نے کہا کہ مالی سال 2013-14ء کے دوران شعبہ کی شرح نمو 4.31 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی جو رواں سال 10.77 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ خدمات کے شعبہ میں فنانس اینڈ انشورنس کے شعبہ کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ مالیاتی شعبہ کے اثاثہ جات 10.49 کھرب ڈالر سے 15 کھرب ڈالر تک بڑھ چکے ہیں۔ مہنگائی اور افراط زر کے حوالے سے وزیر خزانہ نے اقتصادی جائزہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ مالی سال 2013-14ء کے دوران کنزیومر پرائس انڈیکس اور کور پرائس انڈیکس میں 8.69 فیصد کا اضافہ ہوا تھا جو مالی سال 2014-15ء کے دوران 4.81 فیصد تک کم ہوا۔

اسی طرح مالی سال 2015-16ء کے دوران مہنگائی کی شرح 2.79 فیصد تک کم ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال میں جولائی تا اپریل کے دوران مہنگائی کی شرح 4.09 فیصد تک رہی ہے جبکہ اس کا ہدف 5 فیصد مقرر کیا گیا ہے اور مالی سال کے اختتام تک مہنگائی کی شرح کو ہدف سے کم رکھا جائے گا۔ قومی تجارت کے بارے میں وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت برآمدات میں اضافہ پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے مالی سال میں جولائی تا اپریل کے دوران 20.54 ارب ڈالر کی برآمدات کی گئی تھیں جو رواں مالی سال کے اسی عرصہ کے 17.91 ارب ڈالر رہی ہیں اور مالی سال کے اختتام تک مجموعی قومی برآمدات کا حجم 21.76 ارب ڈالر رہنے کی توقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے برآمدی شعبہ کی کارکردگی میں اضافہ کے لئے خصوصی پیکیج دیا تھا جس پر عمل درآمد ہو رہا ہے اور بڑے برآمدی شعبہ کے مستقبل میں بھی مراعات کے عمل کو جاری رکھا جائے گا تاکہ برآمدی صنعت کی کارکردگی کو بڑھایا جا سکے۔

برآمدات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جولائی تا اپریل کے دوران 37.84 ارب ڈالر کی درآمدات کی جا چکی ہیں جبکہ مالی سال کے اختتام تک درآمدات کا حجم 45.48 ارب ڈالر رہنے کا امکان ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں کے فروغ سے مشینری اور پلانٹ کی درآمدات میں رواں مالی سال کے دوران 40 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جو جی ڈی پی پر مثبت اثرات مرتب کرے گی اور اس سے فی کس آمدنی کے اضافہ میں بھی مدد ملے گی۔

انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران بجلی پیدا کرنے والی مشینری کی درآمدات میں 70 فیصد، ٹیکسٹائل مشینری کی درآمدات میں 23 فیصد، تعمیراتی مشینری کی درآمدات میں 69 فیصد، زرعی مشینری کی درآمدات میں 37 فیصد جبکہ دیگر متفرق درآمدات میں 50 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران پلانٹ اور مشینری کی درآمدات میں مجموعی طور پر 40 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

کرنٹ اکائونٹ خسارہ کے بارے میں وزیر خزانہ نے کہا کہ تیل کی قیمتوں میں 50 فیصد سے زائد کے اضافہ، مشینری اور پلانٹ کی درآمدات میں اضافہ اور قومی برآمدات میں کمی کی وجہ سے کرنٹ اکائونٹ خسارہ 17.2 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے جو جی ڈی پی کے 2.4 فیصد کے برابر ہے جبکہ مالی سال کے اختتام تک اس کا ہدف جی ڈی پی کے 2.7 فیصد تک مقرر کیا گیا ہے۔ ترسیلات زر کے حوالے سے وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں رواں مالی سال کے پہلے 10 ماہ کے دوران 2.6 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مالی سال 2015-16ء کے دوران 19.9 ارب ڈالر کی ترسیلات زر موصول ہوئی تھیں جو رواں مالی سال میں 10 ماہ کے دوران 15.6 ارب ڈالر رہی ہیں جبکہ مالی سال کے اختتام تک سمندر پار مقیم پاکستانیوں کی جانب سے 19.5 ارب ڈالر کی ترسیلات زر کی وصولیوں کی توقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں رواں مالی سال کے دوران ترسیلات زر کی وصولیوں میں 2.6 فیصد کی کمی متوقع ہے۔

سرمایہ کاری کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ سال 1.88 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے مقابلے میں رواں مالی سال کے اختتام تک 2.58 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اقتدار سنبھالا تو ملک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 4 ارب ڈالر تھے جو 23 مئی 2017ء تک 16.15 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں اس طرح زرمبادلہ کے ذخائر میں گزشتہ چار سال کے دوران 400 فیصد کے قریب اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ زرمبادلہ کے ذخائر ایک ارب ڈالر کی ادائیگیوں کے بعد ریکارڈ کئے گئے ہیں ورنہ زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم 22 ارب ڈالر سے زائد ہوتا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مالی سال 2013-14ء کے دوران کرنسی کی شرح تبادلہ 99.66 روپے فی ڈالر تھی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی موثر مالیاتی پالیسی اور انتظامات کے نتیجہ میں 22 مئی 2017ء کو ڈالر کی قیمت 104.87 روپے تھی۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ چار سال کے دوران ڈالر کی قیمت میں 1.04 فیصد کی شرح سے اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ جب ڈالر کی قیمت 111 روپے تک بڑھ گئی تو بعض لوگوں نے اس پر سخت تنقید کی اور کہا کہ حکومت کسی طرح بھی ڈالر کی قیمت کم نہیں کر سکتی لیکن مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی موثر مالیاتی پالیسیوں کے نتیجہ میں ڈالر کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی گئی۔

وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ مالی سال 2013-14ء کے دوران فی کس آمدنی 1333.7 ڈالرتھی جو رواں مالی سال کے دوران 1628.8 ڈالر تک بڑھ چکی ہے۔ اس طرح فی کس آمدنی کی شرح میں 22 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے دوران فی کس آمدنی کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران ملک میں کی جانے والی مجموعی سرمایہ کاری کا حجم 3348 ارب روپے تھا جو رواں سال 5026 ارب روپے تک بڑھ چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں کی جانے والی مجموعی سرمایہ کاری میں جی ڈی پی کے تناسب سے 15.78 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا ہے جس میں مزید اضافہ کیا جائے گا تاکہ جی ڈی پی کی شرح نمو کے 7 فیصد کے ہدف کو حاصل کیا جا سکے۔ سماجی تحفظ کے پروگرام کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ سماجی تحفظ کے پروگرام کا بجٹ 42 ارب روپے سے 115 ارب روپے تک بڑھایا جا چکا ہے جبکہ مستحق افراد کو دی جانے والی امدادی رقم کو بھی 12 ہزار روپے سے 19 ہزار روپے تک بڑھا دیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ سماجی تحفظ کے مختلف پروگراموں سے استفادہ کرنے والے افراد کی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مالی سال 2013-14ء کے دوران بے روزگاری کی شرح 6.2 فیصد تھی جو گزشتہ مالی سال کے اختتام پر 5.9 فیصد تک کم ہو گئی۔ ملک کی سٹاک مارکیٹ کی کارکردگی کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ سٹاک مارکیٹ کے ادغام کے بعد پاکستان سٹاک مارکیٹ کو ایمرجنگ سٹاک مارکیٹ کا درجہ حاصل ہوا اور ایک سال کے قلیل عرصہ کے دوران پاکستان سٹاک مارکیٹ کو ایشیاء کی بہترین سٹاک مارکیٹ کا مقام حاصل ہوا جبکہ پی ایس ایکس دنیا کی پانچویں بہترین سٹاک مارکیٹ بن چکی ہے جس کا حجم 52 ہزار پوائنٹس تک بڑھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سٹاک مارکیٹ میں کی جانے والی سرمایہ کاری گزشتہ چار سال کے دوران 51 ارب ڈالر سے 98 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے اور رواں مالی سال کے اختتام تک اس میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت مالیات کے شعبہ کی کارکردگی، ٹیکس محصولات میں اضافہ، حکومتی اخراجات میں کمی سمیت دیگر مختلف اقدامات کر رہی ہے تاکہ قومی معیشت کی ترقی کے اہداف کے حصول کو یقینی بنایا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اپنے پانچ سالہ دور اقتدار کے دوران ٹیکس وصولیوں کی شرح میں دوگنے اضافہ کا ہدف حاصل کرلے گی۔ انہوں نے کہا کہ شرح سود کو 9 فیصد سے 5.75 فیصد تک کم کیا گیا ہے جو گزشتہ 45 سال کے دوران سب سے کم شرح سود ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی معیشت کی ترقی کے حوالے سے نجی شعبہ کو قرضوں کے اجراء پر بھی خصوصی توجہ دی جا رہی ہے اور رواں مالی سال کے دوران نجی شعبہ کو 457 ارب روپے کے قرضے جاری کئے جا چکے ہیں۔

اس حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ مالی سال 2013-14ء کے دوران نجی شعبہ کو 421 ارب روپے، 2014-15ء کے دوران 223 ارب روپے، 2015-16ء کے دوران 446 ارب روپے کے قرضے فراہم کئے گئے جبکہ رواں مالی سال کے ابتدائی 10 ماہ کے دوران نجی شعبہ کو فراہم کئے جانے والے قرضے 457 ارب روپے تک بڑھ چکے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومتی خسارہ کو کم کرنے کے لئے بھی خاطر خواہ اقدامات کئے جا رہے ہیں تاکہ اس کی شرح میں کمی کی جائے۔

بیرونی قرضوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ بیرونی قرضوں میں بھی بہتری آئی ہے اور جون 2013ء میں بیرونی قرضوں کا مجموعی حجم 48.1 ارب ڈالر تھا جو مارچ 2016ء تک 58.4 ارب ڈالر ریکارڈ کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈالر سے زائد ہیں۔ اس طرح مجموعی بیرونی قرضوں کا حجم 41 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ انہوں نے کہا کہ غیر ملکی قرضوں کے حوالے سے 2200 ملین ڈالر کی بہتری ہوئی ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عظیم قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے آپریشن ضرب عضب میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں جس کے نتیجہ میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ملک سے دہشت گردی کے ناسور کے مکمل خاتمے کے لئے آپریشن ردالفساد شروع کیا ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے قومی معیشت کو سالانہ 90 سے 100 ارب کا خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ اس حوالے سے پوری دنیا آگاہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ دہشت گردی کے اخراجات ہم خود برداشت کریں گے اور موجودہ حکومت کا یہ اس حوالے سے اہم اور بڑا فیصلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ تین سال کے دوران حکومت نے 100 ارب روپے سالانہ کے حساب سے نقصانات برداشت کئے ہیں جبکہ آئندہ مالی سال کے دوران بھی دہشت گردی کے خاتمے اور عارضی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کی بحالی اور معاونت کے لئے 100 ارب روپے کے قریب مالی معاونت فراہم کی جائے گی۔